صحيح مسلم
كِتَاب الْهِبَاتِ -- عطیہ کی گئی چیزوں کا بیان
4. باب الْعُمْرَى:
باب: عمریٰ (تاحیات ہبہ) کا بیان۔
حدیث نمبر: 4188
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَيُّمَا رَجُلٍ أُعْمِرَ عُمْرَى لَهُ وَلِعَقِبِهِ، لِلَّذِي أُعْطِيَهَا لَا تَرْجِعُ إِلَى الَّذِي أَعْطَاهَا، لِأَنَّهُ أَعْطَى عَطَاءً وَقَعَتْ فِيهِ الْمَوَارِيثُ ".
امام مالک نے ابن شہاب سے، انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمان سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس آدمی کو عمر بھر کے لیے دی جانے والی چیز اس کے اور اس کی اولاد کے لیے دی گئی تو وہ اسی کی ہے جسے دی گئی، وہ اس شخص کو واپس نہیں ملے گی جس نے دی تھی، کیونکہ اس نے ایسا عطیہ دیا ہے جس میں وراثت جاری ہو گئی ہے
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو اور اس کی اولاد کو کوئی چیز زندگی بھر کے لیے دی گئی تو وہ اس کی ہے جس کو دی گئی ہے، دینے والے کی طرف واپس نہیں لوٹے گی، کیونکہ اس نے ایسا عطیہ دیا ہے، جس میں وراثت جاری ہو چکی ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 282  
´عمریٰ کا بیان`
«. . . 21- عن أبى سلمة عن جابر بن عبد الله أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: أيما رجل أعمر عمرى له ولعقبه: فإنها للذي يعطاها لا ترجع إلى الذى أعطاها لأنه أعطى عطاء وقعت فيه المواريث . . .»
. . . سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو عمریٰ (عمر بھر کے لئے کسی چیز کا تحفہ) دیا جائے کہ یہ اس کا اور اس کے وارثوں کا حق ہے تو جسے عمریٰ ملا اسی کا ہو جائے گا اور دینے والے کی طرف واپس نہیں لوٹے گا کیونکہ اس نے اس طرح دیا ہے کہ اس میں وارثت کے احکام جاری ہو گئے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 282]

تخریج الحدیث:
[الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 756/2 ض 1517، ك 36 ب 37 ح 43، التمهيد 112/7، الاستذكار: 1446، و أخرجه مسلم فواد عبدالباقی ترقیم 1625، دارالسلام 4188، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس عمریٰ کو جائز رکھا ہے وہ یہ ہے کہ عمریٰ دینے والا کہے: یہ تیرے لئے اور تیرے وارثوں کے لئے ہے۔ اگر وہ یہ کہے کہ یہ تیرے لئے ہے جتنا عرصہ تو زندہ رہے تو یہ عمریٰ دینے والے کے پاس واپس لوٹ جائے گا۔ امام زہری بھی اس کے مطابق فتویٰ دیتے تھے۔ [صحيح مسلم 1265/23، وترقيم دارالسلام: 4191]
➋ ام المؤمنین سیدہ حفصہ بنت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہما نے زید بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی بیٹی کو ایک گھر عمر بھر کے لئے دیا۔ جب زید رضی اللہ عنہ کی بیٹی فوت ہو گئی تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے وہ گھر واپس لے لیا۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ (بہن کے وارث ہونے کی وجہ سے) یہ گھر ان کا ہے۔ [موطأ امام مالك 756/2 ح 1519 وسنده صحيح]
➌ قاسم بن محمد بن ابی بکر رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ میں نے لوگوں کو اسی بات پر پایا ہے کہ وہ اپنے امول کے بارے میں اور جو انہیں ملتا شرطوں کی پابندی کرتے تھے۔ [موطأ امام مالك 756/2 ح 1518 وسنده صحيح]
➍ امام مالک فرماتے تھے: ہمارے ہاں (مدینے میں) اسی پر عمل ہے کہ عمریٰ، عمریٰ دینے والے کو لوٹ جاتا ہے بشرطیکہ وہ یہ نہ کہے کہ یہ تیرے لئے اور تیرے وارثوں کے لئے ہے۔ [موطأ امام مالك 756/2 ح 1518 وسنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 21   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2383  
´رقبی کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمریٰ اس شخص کا ہو جائے گا جس کو عمریٰ دیا گیا، اور رقبیٰ اس شخص کا ہو جائے گا جس کو رقبیٰ دیا گیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الهبات/حدیث: 2383]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رقبٰی کامطلب یہ ہےکہ میں تمھیں مثلاً:
یہ مکان دیتا ہوں۔
اگر تم پہلے فوت ہوئے تومکان مجھے واپس مل جائے گا اور اگرمیں پہلے فوت ہوا تومکان تمھارا رہے گا۔

(2)
عمریٰ اور رقبٰی میں فرق یہ ہےکہ عمرٰی میں صرف لینے والے کی عمر کا لحاظ ہوتا تھا کہ جب تک وہ زندہ رہے اس مکان میں رہے گا خواہ دینے والے سےپہلے فوت ہو یا بعد میں۔
جب بھی لینے والا فوت ہوگا، مکان دینے والے کو یا اس کے وارثوں کوواپس مل جائے گا۔
رقبیٰ میں یہ شرط ہوتی تھی کہ صرف اس صورت میں واپس ملے گا، اگر لینے والا پہلے فوت ہو۔
اگر دینے والا پہلے فوت ہوتو مکان لینے والے ہی کا ہو جاتا تھا۔

(3)
عمرٰی اوررقبٰی دونوں کا رواج عرب میں اسلام سے پہلے موجود تھا۔
اسلام میں ان دونوں کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔

(4)
ہبہ کرنا جائز ہے۔
اگر عمرٰی یا رقبٰی والی شرط رکھ کی کسی کوکچھ دیا جائے تووہ ہبہ ہی شمار ہوگا اوریہ شرط خلاف شریعت ہونےکی وجہ سے کالعدم ہو گی۔

(5)
اگر کوئی شخص کسی غریب کی مدد کرناچاہتا ہےاوریہ بھی چاہتا ہے کہ مکان وغیرہ اس کی ملکیت میں رہے تو اسے عاریتاً کچھ مدت کےلیے دینا چاہیے۔
مدت ختم ہونے پر ضرورت محسوس کی جائے تومدت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2383   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1351  
´رقبیٰ کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمریٰ جس کو دیا گیا اس کے گھر والوں کا ہے اور رقبیٰ ۱؎ بھی جس کو دیا گیا ہے اس کے گھر والوں کا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1351]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
رقبیٰ رقب سے ہے جس کے معنی انتظار کے ہیں۔
اسلام نے اس میں اتنی تبدیلی کی کہ وہ چیز موہوب لہ (جس کو وہ چیز دی گئی) کی ہی رہے گی۔
موہوب لہ کے مرنے کے بعد اس کے وارثوں کو وراثت میں تقسیم ہوگی۔
واہب کو بھی نہیں لوٹے گی،
جیسے عمریٰ میں ہے۔
رقبیٰ میں یہ ہوتا تھا کہ ہبہ کرنے والا یوں کہتا کہ یہ چیز میں نے تم کو تمہاری عمر تک دے دی،
تمہاری موت کے بعد یہ چیز مجھے لوٹ آئے گی،
اور اگر میں مر گیا تو تمہاری ہی رہے گی،
پھر تم مرجاؤ گے تو میرے وارثوں کو لوٹ آئے گی۔
اب ہر ایک دوسرے کی موت کا انتظار کیا کرتاتھا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1351   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3556  
´کوئی چیز کسی کو دے کر یہ کہنا کہ یہ چیز تمہاری اور تمہارے اولاد کے لیے ہے۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رقبیٰ اور عمریٰ نہ کرو جس نے رقبیٰ اور عمریٰ کیا تو یہ جس کو دیا گیا ہے اس کا اور اس کے وارثوں کا ہو جائے گا ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3556]
فوائد ومسائل:
فائدہ: (رقبیٰ) میں اس انداز سے ہدیہ دیا جاتا ہے۔
کہ کہے جیتے جی یہ چیز استعمال کرتے رہو۔
اگر تو پہلے فوت ہوگیا تو مجھے واپس ہوگی۔
ورنہ تیری ہوئی۔
بلاشبہ اس قدر طویل مدت تک ایک چیز پر متصرف رہنے کی وجہ سے انسان اس سے مانوس ہوجاتا ہے۔
جسے بعد ازاں واپس کرنا فتنے کا باعث بنتا ہے۔
اس لئے یا تو ہدیہ کلی طور پردے دینا چاہیے یا پھر مناسب مدت کے بعد واپس لے لے۔
بنا بریں عمریٰ یا رقبیٰ کے نام سے جو ہدیہ دیا جائے گا۔
وہ ہمیشہ کےلئے موہوب لہ کا ہوجائےگا۔
راحج مذہب یہی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3556   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4188  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
عُمريٰ:
کسی کو کوئی چیز زندگی بھر کے لیے دینا کہ جب تک تم زندہ رہو،
یہ چیز تمہاری ہے۔
فوائد ومسائل:
عُمري کی تین صورتیں ہیں۔
(1)
دینے والا کہتا ہے،
(هي لك ولعقبك)
،
یہ تمہارا اور تمہاری اولاد کا ہے،
یعنی تیری زندگی کے بعد تیرے وارثوں کا ہے،
تو اس صورت میں جمہور کے نزدیک یہ چیز یا مکان ہمیشہ کے لیے جس کو دیا گیا ہے،
اس کا ہو گا،
اور اس کے بعد اس کی اولاد کا،
اور اگر اس کی نسل ختم ہو جائے،
تو یہ بیت المال کو ملے گا،
لیکن امام مالک اور امام لیث کے نزدیک یہ انسان اور اس کی اولاد،
اس چیز سے فائدہ اٹھا سکتی ہے،
اگر گھر ہے تو رہائش اختیار کر سکتی ہے،
ان کی ملکیت میں نہیں آئے گا،
اس لیے اگر اس کے ورثاء ختم ہو جائیں،
تو یہ دینے والے کے ورثاء کو مل جائے گا،
لیکن یہ موقف اس صریح حدیث کے منافی ہے۔
(2)
گھر دینے والا یہ کہتا ہے،
میں یہ گھر تمہیں تمہاری زندگی تک دیتا ہوں،
تمہاری موت کے بعد مجھے واپس مل جائے گا،
امام مالک کے نزدیک،
جس کو دیا گیا ہے،
اس کو زندگی تک اس کے پاس رہے گا،
اس کے مرنے کے بعد،
دینے والے کو اگر زندہ ہو،
وگرنہ اس کے وارثوں کو واپس مل جائے گا،
امام زہری،
امام داؤد وغیرھما کا موقف بھی یہی ہے،
امام احمد اور امام شافعی کا ایک قول بھی یہی ہے،
اور بقول حافظ ابن حجر بعض شوافع نے اس قول کو ترجیح دی ہے،
لیکن اکثر شوافع اس کو قبول نہیں کرتے،
شاہ ولی اللہ بھی اس کو عاریتاً ہی قرار دیتے ہیں،
لیکن جمہور کے نزدیک اس کا حکم بھی پہلی صورت والا ہے،
اور یہ شرط ساقط ہو گی،
امام ابو حنیفہ،
امام شافعی کا قول جدید اور امام احمد کا راجح قول یہی ہے،
لیکن بقول صاحب تیسیر العلام حافظ ابن تیمیہ نے،
(المسلمون علي شروطهم)
کے تحت،
اس شرط کو صحیح قرار دیا ہے۔
(3)
بغیر کسی قید یا شرط کے کہتا ہے،
کہ یہ گھر عمر بھر کے لیے تیرا ہے،
امام ابو حنیفہ،
امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک اس کا حکم پہلی صورت والا ہے،
یہ ھبہ ہو گا،
عاریتاً نہیں ہو گا،
امام مالک،
امام لیث کے نزدیک یہ عاریۃ ہے،
دینے والے یا اس کے وارثوں کی طرف لوٹ آئے گا،
امام شافعی کا ایک قول یہی ہے،
اور امام شافعی کا قول قدیم یہ ہے کہ یہ صورت درست نہیں ہے۔
(فتح الباري،
ج 5،
ص 294،
مکتبة دارالسلام)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4188