صحيح مسلم
كِتَاب النَّذْرِ -- نذر کے احکام
4. باب مَنْ نَذَرَ أَنْ يَمْشِيَ إِلَى الْكَعْبَةِ:
باب: بیت اللہ کی طرف پیدل چلنے کی نذر کا بیان۔
حدیث نمبر: 4250
وحَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ يَحْيَى بْنِ صَالِحٍ الْمِصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ يَعْنِي ابْنَ فَضَالَةَ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، أَنَّهُ قَالَ: " نَذَرَتْ أُخْتِي أَنْ تَمْشِيَ إِلَى بَيْتِ اللَّهِ حَافِيَةً، فَأَمَرَتْنِي أَنْ أَسْتَفْتِيَ لَهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَفْتَيْتُهُ، فَقَالَ: لِتَمْشِ وَلْتَرْكَبْ "،
مفضل بن فضالہ نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہا:) مجھے عبداللہ بن عیاش نے یزید بن ابی حبیب سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوالخیر سے اور انہوں نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: میری بہن نے ننگے پاؤں پیدل چل کر بیت اللہ جانے کی نذر مانی اور مجھ سے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے لیے فتویٰ لوں، میں نے آپ سے فتویٰ پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ (بقدر استطاعت) پیدل چلے اور سوار ہو
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ واقعہ یہ ہے کہ میری بہن نے نذر مانی کہ وہ ننگے پاؤں پیدل چل کر بیت اللہ جائے گی، تو اس نے مجھے کہا، کہ میں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ کر یہ مسئلہ بتاؤں، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، اس پر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ پیدل چلے (اور تھک جائے) تو سوار ہو جائے۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1182  
´(قسموں اور نذروں کے متعلق احادیث)`
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میری بہن نے بیت اللہ تک ننگے پاؤں چل کر جانے کی نذر مانی اور اس نے مجھے حکم دیا کہ میں اس کے لئے (اس معاملہ میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کروں چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ طلب کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پیدل بھی چلے اور سوار بھی ہو لے۔ (بخاری و مسلم) یہ الفاظ مسلم کے ہیں مسند احمد اور چاروں میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ تیری بہن کو تکلیف و مشقت میں مبتلا کر کے کیا کرے گا۔ اسے حکم دو کہ چادر اوڑھ لے اور سوار ہو جائے اور تین دن کے روزے رکھ لے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1182»
تخریج:
«أخرجه البخاري، جزاء الصيد، باب من نذر المشي إلي الكعبة، حديث:1866، ومسلم، النذر، باب من نذرأن يمشي إلي الكعبة، حديث:1644، وحديث: "أن الله لا يصنع بشقاء أختك شيئًا" أخرجه أبوداود، الأيمان والنذور، حديث:3293، 3295، والترمذي، النذور والأيمان، حديث:1544، والنسائي، الأيمان والنذور، حديث:3845، وابن ماجه، الكفارات، حديث:2134، وأحمد:4 /145 وسنده ضعيف، عبيدالله بن زحر ضعيف، ضعفه الجمهور، وتابعه بكربن سوادة في رواية ابن لهيعة أخرجه أحمد:4 /147، وابن لهيعة ضعيف من جهة سوء حفظه.»
تشریح:
روایت کے آخری حصے «إِنَّ اللّٰہَ لاَ یَصْنَعُ بِشَقَآئِ …» کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے «وَلْتَصُمْ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ» جملے کے علاوہ باقی روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور انھوں نے مذکورہ حدیث کے پہلے حصے کو شاہد بنایا ہے جس میں روزے رکھنے کا ذکر نہیں ہے اور وہ صحیحین کی روایت ہے۔
بنابریں مذکورہ روایت اس جملے «وَلْتَصُمْ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ» اور تین دن کے روزے رکھ لے۔
کے علاوہ صحیح ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (إرواء الغلیل: ۸ /۲۱۸. ۲۲۱‘ والموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد: ۲۸ /۵۴۰. ۵۴۲)
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1182   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1544  
´سابقہ باب سے متعلق ایک اور باب۔`
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری بہن نے نذر مانی ہے کہ وہ چادر اوڑھے بغیر ننگے پاؤں چل کر خانہ کعبہ تک جائے گی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہاری بہن کی سخت کوشی پر کچھ نہیں کرے گا! ۱؎ اسے چاہیئے کہ وہ سوار ہو جائے، چادر اوڑھ لے اور تین دن کے روزے رکھے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان/حدیث: 1544]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اس مشقت کا کوئی ثواب اسے نہیں دے گا۔

2؎:
اس حدیث کی روسے اگر کسی نے بیت اللہ شریف کی طرف پیدل یا ننگے پاؤں چل کر جانے کی نذر مانی ہوتو ایسی نذ ر کا پورا کرنا ضروری اور لازم نہیں،
اور اگر کسی عورت نے ننگے سرجانے کی نذر مانی ہوتو اس کو تو پوری ہی نہیں کرنی ہے کیوں کہ یہ معصیت اورگناہ کا کام ہے۔

نوٹ:
(اس کے راوی عبیداللہ بن زحر سخت ضعیف ہیں،
اس میں روزہ والی بات ضعیف ہے،
باقی ٹکڑوں کے صحیح شواہد موجود ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1544