صحيح مسلم
كِتَاب الْقَسَامَةِ -- قسموں کا بیان
2. باب مَنْ حَلَفَ بِاللاَّتِ وَالْعُزَّى فَلْيَقُلْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ:
باب: جو لات و عزی کی قسم کھائے اس کو لا الہ الا اللہ پڑھنا چاہیے۔
حدیث نمبر: 4262
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ الْحَسَنِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَحْلِفُوا بِالطَّوَاغِي وَلَا بِآبَائِكُمْ ".
حضرت عبدالرحمان بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم بتوں کی قسم نہ کھاؤ، نہ ہی اپنے آباء و اجداد کی
حضرت عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بتوں اور اپنے باپوں کی قسم نہ اٹھاؤ۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2095  
´اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھانے کی ممانعت۔`
عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ طاغوتوں (بتوں) کی، اور نہ اپنے باپ دادا کی قسم کھاؤ۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2095]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  (طواغي)
کا واحد (طاغیة)
ہے، یعنی سرکش۔
بت کو طاغیہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ بندوں کے شرک اور سرکشی کا باعث بنتا ہے۔

(2)
  بت کی قسم اصل میں اس شخص کی اہمیت اور تعظیم کی وجہ سے کھائی جاتی ہے جس کی صورت پر وہ بت بنایا گیا ہے، اس طرح یہ بھی اصل میں بزرگوں اور پیروں کی قسم ہے۔
اور غیراللہ کی قسم حرام ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2095   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4262  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
طاغیہ سے مراد صنم اور بت ہے،
کیونکہ،
وہ کفار کے شرک و سرکشی کا سبب ہے،
اور طغیان کا معنی حدود سے تجاوز کرنا ہے،
جیسا کہ قرآن مجید میں ہے ﴿لَمَّا طَغَى الْمَاءُ﴾ جب پانی حد سے بڑھ گیا،
اس لیے اس کا اطلاق تمام معبودان باطلہ پر ہو جاتا ہے،
اس لیے ضلالت کا ہر سرغنہ طاغیہ ہے،
مقصود یہی ہے،
معبودان باطلہ کی قسم نہ اٹھاؤ،
اور قسم کی تین قسمیں ہیں۔
(1)
يمين غموس:
شعوری طور پر جان بوجھ کر جھوٹی قسم اٹھانا ہے،
جو انسان کو گناہ میں ڈبو دیتی ہے اور گناہ کبیرہ ہے۔
(2)
يمين لغو:
یعنی وہ قسم جو انسان کی زبان پر چڑھی ہونے کی وجہ سے غیر شعوری طور پر نکل جاتی ہے،
یا انسان اپنے شعور اور علم کے مطابق سچی قسم اٹھائے،
جبکہ درحقیقت،
وہ جھوٹی ہو،
(3)
يمين منعقده:
آئندہ زمانہ یا مستقبل کے بارے میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم اٹھانا،
اس کا پورا کرنا ضروری ہے،
اگر گناہ نہ ہو،
وگرنہ کفارہ ادا کرنا ہو گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4262