صحيح البخاري
كِتَاب تَقْصِيرِ الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز میں قصر کرنے کا بیان
20. بَابُ إِذَا صَلَّى قَاعِدًا ثُمَّ صَحَّ أَوْ وَجَدَ خِفَّةً تَمَّمَ مَا بَقِيَ:
باب: اگر کسی شخص نے نماز بیٹھ کر شروع کی لیکن دوران نماز میں وہ تندرست ہو گیا یا مرض میں کچھ کمی محسوس کی تو باقی نماز کھڑے ہو کر پوری کرے۔
حدیث نمبر: 1119
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، وَأَبِي النَّضْرِ، مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي جَالِسًا فَيَقْرَأُ وَهُوَ جَالِسٌ، فَإِذَا بَقِيَ مِنْ قِرَاءَتِهِ نَحْوٌ مِنْ ثَلَاثِينَ أَوْ أَرْبَعِينَ آيَةً قَامَ فَقَرَأَهَا وَهُوَ قَائِمٌ، ثُمَّ يَرْكَعُ، ثُمَّ سَجَدَ يَفْعَلُ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ ذَلِكَ، فَإِذَا قَضَى صَلَاتَهُ نَظَرَ فَإِنْ كُنْتُ يَقْظَى تَحَدَّثَ مَعِي، وَإِنْ كُنْتُ نَائِمَةً اضْطَجَعَ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے عبداللہ بن یزید اور عمر بن عبیداللہ کے غلام ابوالنضر سے خبر دی، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف نے، انہیں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز بیٹھ کر پڑھنا چاہتے تو قرآت بیٹھ کر کرتے۔ جب تقریباً تیس چالیس آیتیں پڑھنی باقی رہ جاتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں کھڑے ہو کر پڑھتے۔ پھر رکوع اور سجدہ کرتے پھر دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے۔ نماز سے فارغ ہونے پر دیکھتے کہ میں جاگ رہی ہوں تو مجھ سے باتیں کرتے لیکن اگر میں سوتی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی لیٹ جاتے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 155  
´نفل نماز بیٹھ کر پڑھی جا سکتی ہے`
«. . . 378- وعن عبد الله بن يزيد مولى الأسود بن سفيان وأبي النضر مولى عمر بن عبيد الله عن أبى سلمة بن عبد الرحمن عن عائشة أم المؤمنين أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي وهو جالس، فيقرأ وهو جالس، فإذا بقي من قراءته قدر ما يكون ثلاثين أو أربعين آية قام فقرأ وهو قائم، ثم ركع، ثم سجد، ثم يفعل فى الركعة الثانية مثل ذلك. . . .»
. . . ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے بیٹھے (نفل) نماز پڑھتے اور قرأت بھی بیٹھے ہوئے ہی کرتے تھے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرات سے تیس یا چالیس آیتوں کی مقدار باقی رہتی تو اٹھ کر قرأت کرتے، پھر حالت قیام سے ہی رکوع کرتے پھر سجدہ کرتے اور دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے تھے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 155]

تخریج الحدیث:
[واخرجه البخاري 1119 و مسلم 731/112 من حديث مالك به]

تفقه:
➊ اگر کوئی شرعی عذر ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز ہے ورنہ فرائض میں قیام فرض ہے۔
➋ اگر کوئی شخص کسی شرعی عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز شروع کرے اور بعد میں دوسری یا کسی رکعت میں اس کی طبیعت بہتر ہو جائے تو وہ باقی نماز کھڑے ہوکر پڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کھڑے ہو کر نماز شروع کرے مگر بعد میں اس کی طبیعت خراب ہو جائے جس کی وجہ سے اس کے لئے کھڑا ہونا مشکل ہو تو باقی نماز حسب استطاعت بیٹھ کر پڑھ سکتا ہے۔
➌ نفل نماز بیٹھ کر پڑھنی جائز ہے لیکن ثواب آدھا ملے گا۔ دیکھئے [التمهيد 19/169] تاہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پورا ثواب ملتا تھا۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 378   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 953  
´بیٹھ کر نماز پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کی نماز کبھی بیٹھ کر پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا یہاں تک کہ آپ عمر رسیدہ ہو گئے تو اس میں بیٹھ کر قرآت کرتے تھے پھر جب تیس یا چالیس آیتیں رہ جاتیں تو انہیں کھڑے ہو کر پڑھتے پھر سجدہ کرتے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 953]
953۔ اردو حاشیہ:
معلوم ہوا کہ نوافل میں جائز ہے کہ انسان بیٹھ کر ابتداء کرے اور اثنائے قرأت میں کھڑا ہو جائے یا کھڑے ہو کر ابتداء کرے اور درمیان میں بیٹھ جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 953   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1226  
´نفل نماز بیٹھ کر پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (نفل نماز میں) بیٹھ کر قراءت کرتے تھے، جب رکوع کا ارادہ کرتے تو اتنی دیر کے لیے کھڑے ہو جاتے جتنی دیر میں کوئی شخص چالیس آیتیں پڑھ لیتا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1226]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
نبی اکرم ﷺ کی نماز تہجد بہت طویل ہوتی تھی۔
اور آپﷺ اس میں طویل قراءت کرتے تھے۔

(2)
کھڑے ہوکر نماز پڑھتے وقت اگر کچھ قیام بیٹھ کے کرلیا جائے تو جائز ہے۔
اس صورت میں رکوع اور قومہ کھڑے ہوکر کیا جائےگا۔
  لیکن اگر پورا قیام بیٹھ کر کیا جائے تو رکوع اور قومہ بھی بیٹھ کر ادا کیا جائےگا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1226   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1119  
1119. ام المومنین حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بیٹھ کر نماز پڑھتے اور بیٹھنے کی حالت میں قراءت کرتے اور جب تقریبا تیس یا چالیس آیات باقی رہ جاتیں تو کھڑے ہو جاتے اور بحالت قیام انہیں تلاوت فرماتے، پھر رکوع کرتے اور سجدے میں چلے جاتے۔ اس کے بعد دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کرتے۔ اور جب نماز سے فارغ ہو جاتے تو دیکھتے، اگر میں بیدار ہوتی تو میرے ساتھ محو گفتگو ہوتے اور اگر میں نیند میں ہوتی تو آپ بھی لیٹ جاتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1119]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ بیٹھ کر نماز شروع کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ نمازی اپنی تمام نماز بیٹھ کر ہی مکمل کرے کیونکہ جس طرح بیٹھ کر شروع کرنے کے بعد کھڑا ہونا درست ہے، اسی طرح کھڑے ہو کر شروع کرنے کے بعد بیٹھ جانا بھی جائز ہے۔
ان دونوں حالتوں میں کوئی فرق نہیں، نیز جو انسان لیٹ کر نماز پڑھتا ہے، پھر دوران نماز میں اسے بیٹھ کر یا کھڑا ہو کر نماز پڑھنے کی ہمت پیدا ہو جاتی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ بھی سابقہ نماز پر بنیاد رکھتے ہوئے اپنی بقیہ نماز کو بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر پورا کرے۔
بعض فقہاء اس کی اجازت نہیں دیتے، لیکن یہ حدیث ان کے خلاف ہے۔
(2)
ابن بطال فرماتے ہیں کہ امام بخاری ؒ کا عنوان فرض سے متعلق ہے جبکہ احادیث نفل نماز کے بارے میں ہیں، امام بخاری ؒ نے ان احادیث سے استنباط فرمایا ہے کہ جب نفل نماز میں بغیر کسی عذر کے بیٹھنا جائز ہے لیکن پھر بھی رسول اللہ ﷺ رکوع سے پہلے کھڑے ہو جاتے تھے، تو فرض نماز جس میں بلا عذر بیٹھنا جائز ہی نہیں، جب عذر زائل ہو جائے تو پھر قیام بطریق اولیٰ جائز ہو گا کیونکہ اس میں اب بیٹھنے کا عذر ختم ہو چکا ہے۔
(فتح الباري: 781/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1119