صحيح مسلم
كِتَاب الْقَسَامَةِ وَالْمُحَارِبِينَ وَالْقِصَاصِ وَالدِّيَاتِ -- قتل کی ذمہ داری کے تعین کے لیے اجتماعی قسموں، لوٹ مار کرنے والوں (کی سزا)، قصاص اور دیت کے مسائل
2. باب حُكْمِ الْمُحَارِبِينَ وَالْمُرْتَدِّينَ:
باب: لڑنے والوں کا اور اسلام سے پھر جانے والوں کا حکم۔
حدیث نمبر: 4353
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ كِلَاهُمَا، عَنْ هُشَيْمٍ وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ ، وَحُمَيْدٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، " أَنَّ نَاسًا مِنْ عُرَيْنَةَ قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، فَاجْتَوَوْهَا، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ شِئْتُمْ أَنْ تَخْرُجُوا إِلَى إِبِلِ الصَّدَقَةِ فَتَشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا، فَفَعَلُوا، فَصَحُّوا ثُمَّ مَالُوا عَلَى الرُّعَاةِ، فَقَتَلُوهُمْ، وَارْتَدُّوا عَنِ الْإِسْلَامِ، وَسَاقُوا ذَوْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَعَثَ فِي أَثَرِهِمْ، فَأُتِيَ بِهِمْ، فَقَطَعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ وَسَمَلَ أَعْيُنَهُمْ وَتَرَكَهُمْ فِي الْحَرَّةِ حَتَّى مَاتُوا ".
عبدالعزیز بن صہیب اور حمید نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ آئے، انہیں یہاں کی آب و ہوا نا موافق لگی (اور انہیں استسقاء ہو گیا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (کے مطالبے پر ان سے) فرمایا: "اگر تم چاہتے ہو تو صدقے کے اونٹوں کے پاس چلے جاؤ اور ان کے دودھ اور پیشاب (جسے وہ لوگ، اس طرح کی کیفیت میں اپنی صحت کا) ضامن سمجھتے تھے) پیو۔ انہوں نے ایسے ہی کیا اور صحت یاب ہو گئے، پھر انہوں نے چرواہوں پر حملہ کر دیا، ان کو قتل کر دیا، اسلام سے مرتد ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے (بیت المال کے) اونٹ ہانک کر لے گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی تو آپ نے (کچھ لوگوں کو) ان کے تعاقب میں روانہ کیا، انہیں (پکڑ کر) لایا گیا تو آپ نے ان کے ہاتھ اور پاؤں کٹوا دیے، ان کی آنکھیں پھوڑ دینے کا حکم دیا اور انہیں سیاہ پتھروں والی زمین میں چھوڑ دیا حتی کہ (وہیں) مر گئے
حضرت انس بن مالک ‬ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ عرینہ قبیلہ کے کچھ لوگ مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، (کھانے پینے کی کثرت سے) ان کے پیٹ خراب ہو گئے، یا آب و ہوا راس نہ آئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: اگر تم چاہو، تو صدقہ کے اونٹوں کے پاس چلے جاؤ، اور ان کا دودھ اور پیشاب پیو۔ انہوں نے ایسے کیا، اور تندرست ہو گئے، پھر چرواہوں کا رخ کیا، اور انہیں قتل کر دیا اور اسلام سے پھر گئے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ ہانک کر لے گئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی اطلاع مل گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تعاقب میں ساتھیوں کو بھیجا، اور انہیں پکڑ لایا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاتھ اور پاؤں کٹوا دئیے، اور ان کی آنکھوں میں گرم سلاخیں پھروائیں، اور انہیں سنگریزوں پر چھوڑ دیا، حتی کہ وہ مر گئے۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 306  
´حلال جانوروں کے پیشاب کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ قبیلہ عکل کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور اپنے اسلام لانے کی بات کی، اور کہنے لگے: اللہ کے رسول! ہم لوگ مویشی والے ہیں (جن کا گزارہ دودھ پر ہوتا ہے) ہم کھیتی باڑی والے نہیں ہیں، مدینہ کی آب و ہوا انہیں راس نہیں آئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ انہیں کچھ اونٹ اور ایک چرواہا دے دیا جائے، اور ان سے کہا کہ وہ جا کر مدینہ سے باہر رہیں، اور ان جانوروں کے دودھ اور پیشاب پئیں ۱؎ چنانچہ وہ باہر جا کر حرّہ کے ایک گوشے میں رہنے لگے جب اچھے اور صحت یاب ہو گئے، تو اپنے اسلام لے آنے کے بعد کافر ہو گئے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر دیا، اور اونٹوں کو ہانک لے گئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے تعاقب کرنے والوں کو ان کے پیچھے بھیجا (چنانچہ وہ پکڑ لیے گئے اور) آپ کے پاس لائے گئے، تو لوگوں نے ان کی آنکھوں میں آگ کی سلائی پھیر دی ۲؎، اور ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئیے، پھر اسی حال میں انہیں (مقام) حرہ میں چھوڑ دیا گیا یہاں تک کہ وہ سب مر گئے۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 306]
306۔ اردو حاشیہ:
➊ چونکہ وہ لوگ صحرائی زندگی کے عادی تھے، اس لیے شہری ماحول انہیں راس نہ آیا اور بدہضمی ہو گئی۔
اونٹوں کے پیشاب پیو۔ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ ماکول اللحم جانور، یعنی جس جانور کا گوشت کھانا جائز ہے، اس کا پیشاب پاک ہے ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پیشاب پینے کا حکم نہ دیتے۔ ویسے بھی شریعت کے اصول مدنظر رکھے جائیں تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کیونکہ ماکول اللحم جانور گھروں میں رکھے جاتے ہیں، ان کا دودھ پیا جاتا ہے، ان پر سواری کی جاتی ہے اور ان کی خدمت کرنی پڑتی ہے، اس لیے گھر، کپڑے اور جسم کو ان کے پیشاب اور گوبر سے پاک رکھنا ناممکن ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ دودھ دوہتے وقت وہ پیشاب شروع کر دیں اور پیشاب کا کوئی چھینٹا دودھ میں جا گرے۔ اب اگر ان کے پیشاب اور گوبر کو پلید قرار دیا جائے تو لوگ بڑی مشکل میں پھنس جائیں گے، نیز ان کے پیشاب اور گوبر میں وہ بدبو نہیں ہوتی جو انسان اور حرام جانوروں کی نجاست میں ہوتی ہے، اس لیے دیہات میں لوگ ان جانوروں کے گوبر وغیرہ سے اپنے فرش دیواروں اور چھتوں کو لیپتے ہیں۔ ان کا گوبر بطور ایندھن استعمال کیا جاتا ہے اور یہ فطری استعمال ہے کیونکہ مسلم اور غیر مسلم سب اس میں شریک ہیں، لہٰذا ان جانوروں کے پیشاب اور گوبر کے پاک ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا۔ جمہور اہل علم اسی بات کے قائل ہیں۔
➌ جو حضرات مأکول اللحم جانوروں کے پیشاب کو پلید سمجھتے ہیں، وہ اس حدیث کا یہ جواب دیتے ہیں کہ علاج کی غرض سے پلید چیز کا استعمال جائز ہے، کیونکہ علاج بھی ایک مجبوری ہے۔ یہ امام ابویوسف رحمہ اللہ کا قول ہے جب کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علاج کی غرض سے بھی اس پیشاب کو جائز نہیں سمجھتے، وہ اس حدیث کو صرف انہی لوگوں کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں جنہیں حکم دیا گیا تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی سے پتہ چلا تھا کہ ان کی شفا پیشاب میں ہے۔ ہم کسی اور مریض کے بارے میں نہیں کہہ سکتے کہ اسے لازماًً شفا ہو گی۔ لیکن یہ بات کافی کمزور محسوس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد بھی اس مسئلے میں ان سے متفق نہیں۔
➍ ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیرنا، ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دینا، انہیں گرم پتھروں پر چھوڑ دینا اور باوجود پانی کی طلب کے انہیں پانی نہ دینا اور ان کا اسی طرح تڑپ تڑپ کر مر جانا بطور قصاص تھا کیونکہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کے ساتھ بعینہٖ یہی ظالمانہ سلوک کیا تھا، لہٰذا انہیں بدلہ دیا گیا جو فرض تھا۔ قرآن مجید میں ہے: «كتب عليكم القصاص فى القتلي» [البقرة 178: 2]
تم پر مقتولوں میں برابری کا بدلہ لینا لکھ دیا گیا ہے۔
قصاص برابری اور مماثلت کو کہا جاتا ہے، لہٰذا اس پر کوئی اعتراض نہیں اور محدثین کے نزدیک اب بھی اگر قاتل نے مقتول کو وحشیانہ طریقے سے قتل کیا ہو تو قصاص کے حکم کے پیش نظر اور لوگوں کو عبرت دلانے کی خاطر، قاتل کو اسی طریقے سے قتل کیا جائے گا، مگر بعض فقہاء (موالک و احناف) کے نزدیک یہ حدیث منسوخ ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: «لاقود الا بالسيف» [سنن ابن ما جه، الديات، حديث: 2668]
یعنی قصاص صرف تلوار کے ایک وار سے لیا جائے گا، مگر یاد رہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ قصاص کے حکم کے خلاف ہے اور باب والی روایت قرآن کے موافق ہے اور سنداًً اعلیٰ درجے کی ہے، لہٰذا محدثین کی بات ہی صحیح ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 306   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 307  
´حلال جانوروں کے پیشاب کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں قبیلہ عرینہ کے کچھ اعرابی (دیہاتی) آئے، اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا، لیکن مدینہ کی آب و ہوا انہیں راس نہیں آئی، یہاں تک کہ ان کے رنگ زرد ہو گئے، اور پیٹ پھول گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی اونٹنیوں کے پاس بھیج دیا ۱؎ اور انہیں حکم دیا کہ وہ ان کے دودھ اور پیشاب پئیں، یہاں تک کہ وہ صحت یاب ہو گئے، تو ان لوگوں نے آپ کے چرواہے کو قتل کر ڈالا، اور اونٹوں کو ہانک لے گئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو ان کے تعاقب میں بھیجا، چنانچہ انہیں پکڑ کر آپ کی خدمت میں لایا گیا، تو آپ نے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے، اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائی پھیر دی۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 307]
307۔ اردو حاشیہ:
گویا یہ حدیث مرسل ہے۔ مرسل روایت وہ ہوتی ہے جس میں تابعی یوں کہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے فرمایا، ایسے کیا۔
کفر کی وجہ سے دراصل ان کے کئی جرم تھے۔ کفر، قتل، ڈاکا، درندگی۔ ہر جرم کی سزا ضروری تھی، چونکہ کفر سب سے بڑا جرم ہے، اس لیے صرف اس کا ذکر کیا کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں، ورنہ صرف کفر کی بنا پر اس طرح قتل نہیں کیا جاتا بلکہ ان سے یہ سلوک ان کے مجموعی جرائم کی بنا پر کیا گیا جن میں کفر بھی شامل ہے۔
➌ یہ لوگ دو قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے۔ عکل اور عرینہ۔ پہلی روایت میں عکل کا ذکر ہے اور اس میں عرینہ کا۔ یہ کوئی اختلاف نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [فتح الباري: 438/1، 439، تحت حدیث: 233]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 307   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح البخاري 233  
ماکول اللحم جانوروں کا پیشاب پاک ہے۔
اگرچہ راجح بات یہی ہے لیکن اس مسئلہ میں علما کا اختلاف بہرحال موجود ہے۔
(مالکیہ، حنابلہ) ماکول اللحم جانوروں کا پیشاب پاک ہے۔ امام نخعی، امام اوزاعی، امام زہری، امام محمد، امام زفر، امام ابن خزیمہ، امام ابن منذر اور امام ابن حبان رحمہ اللہ اجمعین کا بھی یہی موقف ہے۔ [المغني 490/12] ۱؎
ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرنیین کو اونٹوں کا دودھ اور پیشاب (بطور دواء) پینے کا حکم دیا۔ [بخاري 233] ۲؎
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریوں کے باڑوں میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے (درآں حالیکہ وہاں کی اکثر جگہ کا ان کے پیشاب و پاخانہ سے آلودہ ہونا لازمی امر ہے)۔ [ترمذي 348] ۳؎
➌ حرام اشیاء میں شفا نہیں ہے جیسا کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ «إن الله لم يجعل شفائكم فيما حرم عليكم» بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہاری شفا ان اشیاء میں نہیں رکھی جنہیں تم پر حرام کیا ہے۔ [بخاري قبل الحديث 5614] ۴؎
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ «نهي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن كل دواء خبيث» اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر خبیث دوا (کے استعمال) سے منع فرمایا: ہے۔ [أبوداود 3870] ۵؎
عرنیین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اونٹوں کا پیشاب بطور دوا استعمال کیا اور انہیں شفا ہوئی جو کہ اس کی حلت و طہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے کیونکہ حرام میں شفا نہیں ہے۔
(شافعیہ، حنفیہ) پیشاب حیوان کا ہو یا انسان کا مطلق طور پر نجس و پلید ہے۔ [الدر المختار 295/1] ۶؎
(ابن حجر رحمہ اللہ) انہوں نے جمہور سے بھی یہی قول نقل کیا ہے۔ [فتح الباري 291/1]
ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان دونوں قبروں میں عذاب ہو رہا ہے۔۔۔ ان میں سے ایک شخص کو اس لیے عذاب ہو رہا ہے کہ «فكان لا يستتر من البول» وہ پیشاب (کے چھینٹوں) سے اجتناب نہیں کرتا تھا۔ [بخاري 216] ۷؎
اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ اس حدیث میں مذکور پیشاب سے مراد صرف انسان کا پیشاب ہے نہ کہ تمام حیوانات کا بھی جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحب قبر کے متعلق کہا: تھا کہ وہ اپنے پیشاب سے نہیں بچتا تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کے پیشاب کے علاوہ کسی چیز کا ذکر نہیں کیا۔ [بخاري قبل الحديث 217] ۸؎
(راجح) حنابلہ و مالکیہ کا موقف راجح ہے کیونکہ ہر چیز میں اصل طہارت ہے جب تک کہ شرعی دلیل کے ذریعے کسی چیز کا نجس ہونا ثابت نہ ہو جائے۔ [نيل الأوطار 100/1] ۹؎
------------------
۱؎ [المغني 490/12، القوانين الفقهية ص/33، كشاف القناع 220/1، الشرح الصغير 1 /47]
۲؎ [بخاري 233، كتاب الوضوء: باب أبوال الإبل والدواب والغنم، مسلم 1671، أبو داود 4364، نسائي 160/1، ترمذي 72، ابن ماجة 2578، ابن ابي شيبة 75/7، أحمد 107/3، ابن حبان 1386، دارقطني 131/1، بيهقي 4/10]
۳؎ [صحيح: ترمذي 348، كتاب الصلاة: باب ما جاء فى الصلاة فى مرابض الغم . . .، مسلم 817]
۴؎ [بخاري قبل الحديث 5614، كتاب الأشربة: باب شراب الحلواء والغسل]
۵؎ [صحيح: صحيح أبو داود 3278، كتاب الطب: باب الأدوية المكر وهة، أبوداود 3870، ترمذي 2045، ابن ماجة 3459، أحمد 305/2]
۶؎ [فتح القدير 146/1، الدر المختار 295/1، مراقي الفلاح ص/25، مغني المحتاج 79/1، المبسوط۔ 54/1، الهداية 36/1]
۷؎ [بخاري 216، 218 كتاب الوضوء: باب من الكبائر أن لا يستر من بوله، مسلم 292، أبو داود 20، ترمذي 70، نسائي 28/1، ابن ماجة 347، بيهقي 104/1، ابن خزيمة 56، ابن حبان 3118، ابن الجارود 130]
۸؎ [بخاري قبل الحديث 217 كتاب الوضوء: باب ما جاء فى غسل البول]
۹؎ [نيل الأوطار 100/1، الروضة الندية 73/1، فتح الباري 384/1]
* * * * * * * * * * * * * *

10۔ تمام غیر ماکول اللحم جانوروں کے پیشاب کو نجس قرار دینا درست نہیں
➊ کیونکہ اس کی کوئی واضح دلیل موجود نہیں۔
➋ اور جو روایت اس ضمن میں پیش کی جاتی ہے: «لا بأس ببول ما أكل لحمه» ماکول اللحم جانوروں کے پیشاب میں کوئی حرج نہیں ہے۔ وہ ضعیف و ناقابل حجت ہے کیونکہ اس کی سند میں سوار بن مصعب راوی ضعیف ہے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے منکر الحدیث اور امام نسائی رحمہ اللہ نے اسے متروک قرار دیا ہے۔ [ضعيف: دارقطني 128/1] ۱؎
امام ابن حزم رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ یہ خبر باطل موضوع ہے۔ [المحلي بالآثار 180/1]
لہٰذا راجح بات یہی ہے یقینی طور پر صرف انسان کے بول و براز کی نجاست پر ہی اکتفاکیا جائے علاوہ ازیں بقیہ حیوانات میں سے جس کے بول و براز کے متعلق طہارت یا نجاست کا حکم صریح نص سے ثابت ہو جائے اسے اسی حکم کے ساتھ ملحق کر دیا جائے اور اگر ایسی کوئی دلیل نہ ملے تو اصل (طہارت) کی طرف رجوع کرنا ہی زیادہ درست اور قرین قیاس ہے۔ [نيل الأوطار 101/1] ۲؎
------------------
۱؎ [ضعيف: دارقطني 128/1، ميزان الاعتدال 246/2]
۲؎ [نيل الأوطار 101/1، السيل الجرار 311/1، الروضة الندية 74/1]
* * * * * * * * * * * * * *

   فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 144   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3503  
´اونٹ کے پیشاب کے حکم کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ آئے، انہیں مدینے کی آب و ہوا راس نہ آئی، اور بیمار ہو گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم ہمارے اونٹوں کے پاس جا کر ان کے دودھ اور پیشاب پیتے (تو اچھا ہوتا)، تو انہوں نے ایسا ہی کیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3503]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ان افراد میں کچھ قبیلہ عکل کے تھے۔
اور کچھ قبیلہ عرینہ سے تعلق رکھتے تھے۔

(2)
اگرکسی جگہ کی آب وہواموافق نہ ہو تو دوسری مناسب جگہ چلے جانا درست ہے۔
اس کا حکم وبا سے بھاگنے کی کوشش کا نہیں۔

(3)
بیت المال کی کسی چیز کو مالک بنائے بغیر اسے عاریتاً بھی دی جا سکتی ہے۔
تا کہ وہ اس سے حسب ضرور فائدہ اٹھائے۔

(4)
اونٹنیوں کے دودھ میں پیٹ کے بڑھ جانے کا علاج ہے۔

(5)
جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے۔
ان کاپیشاب علاج کے طور پرپینا جائز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3503   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 72  
´جس جانور کا گوشت کھانا حلال ہو اس کے پیشاب کا حکم۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ مدینہ آئے، انہیں مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی، چنانچہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں زکاۃ کے اونٹوں میں بھیج دیا اور فرمایا: تم ان کے دودھ اور پیشاب پیو (وہ وہاں گئے اور کھا پی کر موٹے ہو گئے) تو ان لوگوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے چرواہے کو مار ڈالا، اونٹوں کو ہانک لے گئے، اور اسلام سے مرتد ہو گئے، انہیں (پکڑ کر) نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، آپ نے ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کٹوا دیئے، ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھیر دیں اور گرم ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 72]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی اس کا پیشاب نجس نہیں ضرورت پر علاج میں اس کا استعمال جائز ہے،
اور یہی محققین محدثین کا قول ہے،
نا پاکی کے قائلین کے دلائل محض قیاسات ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 72   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4353  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
غزوہ ذی قرد 6ھ کے بعد کچھ افراد جو چار عرینہ اور تین عکل سے تھے اور ایک اور آدمی بھی ان کے ساتھ تھا،
جو بھوک کی شدت کی بناء پر کمزور اور بیمار ہو چکے تھے،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر مسلمان ہو گئے،
اور اصحاب الصفہ کے ساتھ رہنے لگے،
بعد میں مدینہ میں کھا پی کر تندرست ہو گئے،
لیکن چونکہ بدوی لوگ تھے،
اس لیے بدہضمی کا شکار ہو گئے (جویٰ پیٹ کی بیماری کو کہتے ہیں)
یا مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی،
(استيخام آب و ہوا کی ناموافقت کو کہتے ہیں)
جس کی بناء پر ان کے پیٹ پھول گئے،
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آب و ہوا کی ناموافقت پر انہیں مدینہ سے نکلنے کی اجازت مرحمت فرمائی،
جس سے ثابت ہوتا ہے،
آب و ہوا کی تبدیلی کے لیے یا ناموافقت کی بناء پر علاقہ اور گھر تبدیل کیا جا سکتا ہے،
مدینہ سے باہر تقریبا چھ میل کے فاصلہ پر ذی جدر نامی جگہ میں صدقہ کے اونٹ چرتے تھے،
انہوں نے دودھ پینے کی خواہش کا اظہار کیا،
تو آپﷺ نے انہیں صدقہ کے اونٹوں کے پاس جانے کا حکم دیا،
اور اس وقت آپﷺ کی اونٹنیاں بھی ادھر جا رہی تھیں،
اس لیے ان کے ساتھ ان کو روانہ کر دیا،
یا اہل صدقہ کے منتظم و متولی چونکہ آپﷺ ہی تھے،
اس لیے بعض روایات میں ان کو آپ کی طرف منسوب کر دیا گیا۔
(2)
اس حدیث کی بناء پر مأکول اللحم حیوانات یعنی جن کا گوشت کھانا جائز ہے،
کے بول کے بارے میں ائمہ کے درمیان اختلاف پیدا ہوا،
اس حدیث کی بناء پر امام مالک،
امام احمد،
محمد بن الحسن شوافع میں سے ابن المنذر،
ابن خزیمہ وغیرہ،
شعبی،
عطاء،
نخعی،
زہری،
ابن سیرین،
ثوری کے نزدیک مأکول اللحم حیوانات کا بول پاک ہے،
لیکن امام ابو حنیفہ،
شافعی،
ابو یوسف،
ابو ثور وغیرہم کے نزدیک تمام حیوانات کا بول ناپاک ہے،
ابن حزم کا موقف بھی یہی ہے،
داود،
ظاہری،
ابن علیہ اور ایک قول کے مطابق بعض کے نزدیک انسانی بول کے سوا تمام بول پاک ہیں۔
احناف و شوافع نے اس کی یہ تأویل کی ہے کہ یہ اجازت علاج معالجہ کے لیے تھی،
جو ضرورت کی بناء پر دی گئی،
لیکن حرام چیز سے علاج خود مختلف فیہ ہے،
امام احمد کے نزدیک محرم اشیاء سے علاج کسی صورت میں جائز نہیں ہے،
کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے،
اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو حرام ٹھہرایا ہے،
اس میں شفاء نہیں رکھی،
شوافع کے نزدیک اس حدیث کی روشنی میں نشے والی اشیاء کے سوا تمام نجس اور پلید اشیاء سے علاج جائز ہے،
بشرطیکہ یہ بات یقینی ہو،
مالکیہ کا موقف حنابلہ والا ہے،
شراب کے پینے سے جبکہ پانی میسر نہ ہو،
مردار کھانے سے جب غذا میسر نہ ہو،
زندگی کا بچنا یقینی ہے،
لیکن علاج و دوا سے صحت کا ملنا یقینی نہیں ہے،
اس لیے یہ قیاس مع الفارق ہے،
احناف کے نزدیک امام ابو حنیفہ کا مشہور قول یہی ہے کہ حرام چیز سے علاج جائز نہیں ہے،
امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک جائز ہے،
اور اکثر احناف علماء نے ابو یوسف کے موقف کو اس شرط کے ساتھ تسلیم کیا ہے کہ مسلمان ماہر ڈاکٹر یہ کہتے ہیں،
کہ اس بیماری کا علاج،
اس حرام دوا کے سوا موجود نہیں ہے اور یہ دوا شفاء بخش ہے۔
(تفصیل کے لیے دیکھئے،
تکملہ ج 2،
ص 298 تا 304)
(2)
تندرست ہونے کے بعد ان لوگوں نے ارتداد و بدعہدی کرتے ہوئے،
سولہ (16)
اونٹ بھگا لیے اور ان میں سے ایک کو ذبح کر ڈالا،
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام یسار نے ان کا تعاقب کیا،
تو انہوں نے اس کے ہاتھ،
پاؤں کاٹ ڈالے اور اس کی زبان اور آنکھوں میں کانٹے گاڑ دئیے،
حتی کہ وہ فوت ہو گئے۔
(طبقات لابن سعد،
ج 2،
ص 93)
(3)
اور بقول ابن حجر راعی یعنی چرواہا جسے انہوں نے قتل کیا تھا،
وہ صرف حضرت یسار رضی اللہ عنہ تھے،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب علم ہوا تو آپ نے ان کے تعاقب کے لیے حضرت کرز بن جابر فھری کی قیادت میں بیس سواروں کا ایک دستہ روانہ فرمایا،
اگلے دن انہوں نے ایک عورت کی راہنمائی سے کھانے سے فراغت کے بعد سب کو گھیر کر قیدی بنا لیا،
اور انہیں باندھ کر اپنے پیچھے گھوڑوں پر سوار کر کے مدینہ منورہ لے آئے،
اور ان کے ساتھ وہ سلوک کیا،
جو انہوں نے چرواہے کے ساتھ کیا تھا،
اور اس سے زائد سزا نہیں دی،
حالانکہ وہ اپنی نمک حرامی،
بدعہدی،
اور حسن سلوک کے جواب میں انتہائی ظالمانہ اور سفاکانہ کاروائی کی بناء پر اس سے بھی زیادہ سنگین سزا کے مستحق تھے،
اور کسی قسم کی رحمدلی،
معافی یا ترس کے قابل نہ تھے،
نیز حدود کے اجراء اور قضاء میں کسی قسم کی نرمی اور رافت روا رکھنا جائز نہیں ہے۔
(4)
ان لوگوں نے ظلم و ستم اور بدعہدی کے ساتھ ڈاکہ اور ارتداد (دین اسلام سے پھر جانا)
کا ارتکاب کیا تھا،
اس لیے ان دونوں مسئلوں پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔

ڈاکہ اور راہزنی،
ڈاکو یا رہزن وہ فرد یا افراد ہیں،
جن کے خوف اور ڈر سے لوگوں کا راستہ پر چلنا دشوار ہو جائے اور ان سے لوگوں کا جان و مال محفوظ نہ ہو،
اور ان کو اس قدر قوت و شوکت حاصل ہو کہ عوام ان کا مقابلہ کر کے اپنا دفاع نہ کر سکتے ہوں،
اور امام ابن حزم کے نزدیک تو ڈاکو ہر وہ ظالم انسان ہے،
جو اہل ارض کو خوف میں مبتلا کر کے راستہ مسدود کر دے،
اور وہ یہ کام کہیں اور کسی وقت کرے،
دن کو یا رات کو،
شارع عام میں،
یا کسی گلی کوچے میں،
جنگل میں یا آبادی و شہر میں،
احناف اور حنابلہ کے نزدیک ڈاکو کے پاس آلات حرب یا اسلحہ کا ہونا ضروری ہے،
اور مالکیہ اور شوافع کے نزدیک،
مال چھیننے کے لیے محض دھمکی اور قوت و شوکت کا استعمال ہی سزا کے لیے کافی ہے،
ڈاکوؤں اور راہزنوں کی سزا کا انحصار،
ان کی حرکات اور زیادتی پر موقوف ہے،
ڈاکو اگر ڈاکہ زنی سے قبل ہی پکڑ لیے جائیں،
ابھی انہوں نے نہ مال لوٹا اور نہ کسی کی جان لی ہے،
تو انہیں احناف کے ہاں بطور سزا اس وقت تک قید میں رکھا جائے گا،
جب تک وہ اس سے توبہ کر کے اپنی نیک چلنی کا اظہار نہ کریں،
اور اگر وہ چوری کے نصاب کے بقدر مال چھین لیں اور قتل نہ کریں تو ان کے ہاتھ پاؤں مخالف جانبوں سے قطع کر دئیے جائیں گے،
اور اگر وہ ڈاکہ زنی کی واردات کے دوران قتل کریں اور مال کو ہاتھ نہ لگائیں،
تو انہیں قتل کی سزا دی جائے گی،
جو قصاص نہ ہونے کی بناء پر اولیائے مقتول کی طرف سے معاف نہیں ہو سکے گی،
اگر ڈاکو قتل کے ساتھ،
مال بھی چھین لیں،
تو علامہ تقی کے بقول،
امام کو اختیار ہے،
اگر چاہے تو ان کے ہاتھ پاؤں مخالف جانبوں سے کاٹ کر قتل کر دے یا سولی پر لٹکا دے،
یا تینوں کام کرے،
یا قتل کر کے،
سولی پر لٹکا دے،
یا صرف قتل کروا دے،
یا سولی پر چڑھا دے۔
(تکملة:
ج 2 ص 311)

لیکن بقول ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن اگر انہوں نے قتل اور حصول مال دونوں جرائم کا ارتکاب کیا ہو تو مخالف جانبوں سے ان کے ہاتھ پاؤں قطع کر کے انہیں قتل کر کے سولی پر چڑھا دیا جائے گا،
یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف جانبوں سے کاٹے بغیر صرف قتل کر کے سولی پر چڑھا دیا جائے گا،
اگرچہ ڈاکوؤں کی جماعت کے ایک ہی فرد نے قتل کا ارتکاب کیوں نہ کیا ہو اسلامی قوانین حدود،
قصاص،
دیت و تعزیرات ص 75 شافعیوں کا موقف احناف والا ہے،
صرف آخری صورت میں جب انہوں نے قتل اور حصول مال دونوں جرائم کا ارتکاب کیا ہے،
تو ان کے ہاتھ پاؤں کاٹے بغیر قتل کر کے سولی پر لٹکا دیا جائے گا،
مالکیہ،
تیسری صورت میں جب ڈاکوؤں نے قتل کیا ہے،
مال نہیں لوٹا،
احناف شوافع کے ہمنوا ہیں کہ ڈاکوؤں کو بطور حد قتل کر دیا جائے گا،
بطور قصاص نہیں،
اس لیے مقتول کے اولیاء معاف نہیں کر سکیں گے،
باقی تینوں صورتوں میں حاکم کو اختیار ہو گا،
ان کو قتل کرے،
یا قتل کر کے سولی پر لٹکا دے یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف جوانب کٹوا دے،
یا تعزیر (مار پیٹ)
کے بعد ان کو جلا وطن کر دے۔
(تکملة:
ج 2 ص 312)

لیکن ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن کا بیان اس سے مختلف ہے،
ص 76 (اسلامی قوانین)
حنابلہ کا موقف بھی شوافع والا ہے،
صرف پہلی صورت میں،
جبکہ انہوں نے محض ڈرایا یا دھمکایا ہے،
نہ قتل کیا ہے اور نہ مال چھینا ہے،
تو انہیں کسی ایک علاقہ میں ٹکنے نہیں دیا جائے گا۔
اور ان سزاؤں کا ماخذ سورہ المائدہ کی آیت 22 ﴿إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَهُ۔
۔
۔
جس میں (او)
کے لفظ کو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ تخییر کے لیے قرار دیتے ہیں اور باقی ائمہ بیان و تفصیل کے لیے کہ سزا،
بقدر جرم ہو گی۔
اور آیت میں ﴿یُنْفَوا مِنَ الْأَرْضِ﴾ میں نفی سے مراد اکثریت کے نززدیک قیدوبند ہے اور بقول بعض جلاوطنی۔
بنو عرینہ او ربنو عکل کے لوگوں کا دوسرا جرم ارتداد یعنی دین سے پھرنا ہے،
اسلام جس طرح لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرتا ہے اور جو لوگ،
انسانوں کی جان و مال کے لیے خطرہ پیدا کرتے ہیں،
یا ان کی عزت کو پامال کرتے ہیں تو ان کو عبرتناک سزا دیتا ہے تاکہ لوگوں کا مال اور دین محفوظ رہے،
اس طرح جو انسان،
اسلام سے منکر ہو کر،
مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہو کر انہیں گمراہ کرنے اور دین میں فتنہ و فساد برپا کرنے کی کوشش کرتا ہے،
اس کو سنگین سزا دیتا ہے اور اس کی سزا قتل ہے،
جس پر امت کے فقہاء،
جن میں ائمہ اربعہ داخل ہیں،
متفق ہیں۔
اس میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے کہ کیونکہ قتل مرتد کے بارے میں صحیح احادیث موجود ہیں۔
(تفصیلات کے لیے دیکھیے:
اسلامی قوانین،
حدود،
قصاص،
دیت،
وتعزیرات،
ڈاکٹر تنزیل الرحمان،
ص 146 تا 160)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4353