صحيح مسلم
كِتَاب الْقَسَامَةِ وَالْمُحَارِبِينَ وَالْقِصَاصِ وَالدِّيَاتِ -- قتل کی ذمہ داری کے تعین کے لیے اجتماعی قسموں، لوٹ مار کرنے والوں (کی سزا)، قصاص اور دیت کے مسائل
3. باب ثُبُوتِ الْقِصَاصِ فِي الْقَتْلِ بِالْحَجَرِ وَغَيْرِهِ مِنَ الْمُحَدَّدَاتِ وَالْمُثَقَّلاَتِ وَقَتْلِ الرَّجُلِ بِالْمَرْأَةِ:
باب: پتھر وغیرہ بھاری چیز سے قتل کرنے میں قصاص لازم ہو گا اسی طرح مرد کو عورت کے بدلے قتل کریں گے۔
حدیث نمبر: 4361
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ يَهُودِيًّا قَتَلَ جَارِيَةً عَلَى أَوْضَاحٍ لَهَا فَقَتَلَهَا بِحَجَرٍ، قَالَ: فَجِيءَ بِهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِهَا رَمَقٌ، فَقَالَ لَهَا: أَقَتَلَكِ فُلَانٌ؟ فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا أَنْ لَا، ثُمَّ قَالَ لَهَا: الثَّانِيَةَ، فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا أَنْ لَا، ثُمَّ سَأَلَهَا الثَّالِثَةَ، فَقَالَتْ: نَعَمْ وَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا، فَقَتَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ حَجَرَيْنِ "،
بن جعفر نے کہا: ہمیں شعبہ نے ہشام بن زید سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کو اس کے زیورات (حاصل کرنے) کی خاطر مار ڈالا، اس نے اسے پتھر سے قتل کیا، کہا: وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی گئی اور اس میں زندگی کی رمق موجود تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک یہودی کا نام لیتے ہوئے) اس سے پوچھا: "کیا تجھے فلاں نے مارا ہے؟" اس نے اپنے سر سے نہیں کا اشارہ کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دوسری بار (دوسرا نام لیتے ہوئے) پوچھا: تو اس نے اپنے سر سے نہیں کا اشارہ کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے (تیسرا نام لیتے ہوئے) تیسری بات پوچھا: تو اس نے کہا: ہاں، اور اپنے سر سے اشارہ کیا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (ملوث یہودی کو اس کے قرار کے بعد، حدیث: 4365) دو پتھروں کے درمیان قتل کروا دیا۔
حضرت انس ‬ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے چاندی کے زیورات کی خاطر ایک لڑکی کو مار ڈالا، اسے پتھر سے مارا، اس لڑکی کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، کیونکہ ابھی اس میں زندگی کے آثار تھے، جان نہیں نکلی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: کیا تجھے فلاں نے قتل کیا ہے؟ اس نے سر کے اشارے سے بتایا، نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ (کسی اور کے بارے میں) پوچھا، تو اس نے سر سے اشارہ کیا، کہ نہیں، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بار سوال کیا، تو اس نے سر کے اشارے سے کہا، ہاں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دو پتھروں کے درمیان (سر رکھ کر) قتل کروا دیا (کیونکہ اس نے قتل کا اعتراف کر لیا تھا)۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2666  
´قاتل سے قصاص اسی طرح لیا جائے گا جس طرح اس نے قتل کیا ہے۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کو اس کے زیورات کی خاطر مار ڈالا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکی سے (اس کی موت سے پہلے) پوچھا: کیا تجھے فلاں نے مارا ہے؟ لڑکی نے سر کے اشارہ سے کہا: نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے کے متعلق پوچھا: (کیا فلاں نے مارا ہے؟) دوبارہ بھی اس نے سر کے اشارے سے کہا: نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے کے متعلق پوچھا: تو اس نے سر کے اشارے سے کہا: ہاں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یہودی کو دو پتھروں کے درمیان رکھ کر قتل کر دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2666]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
پتھروں کے درمیان قتل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا سرپتھر پر رکھ کر اوپر سے دوسرا پتھر مارا جس سے وہ شدید زخمی ہوگئی اور بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوتے ہوئے فوت ہوگئی۔

(2)
گواہی کےمعاملے میں واضح اشارہ کلام کے حکم میں ہے۔
نماز میں اس قسم کا اشارہ کلام کے حکم میں نہیں۔ (صحیح البخاري، الکسوف، باب صلاۃ النساء مع الرجال فی الکسوف، حدیث: 1053)

(3)
سزائے موت اسی طرح دی جائے جس طرح قاتل نے قتل کیا ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2666   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 999  
´(جنایات کے متعلق احادیث)`
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک لونڈی ایسی حالت میں پائی گئی کہ اس کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا گیا تھا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس سے دریافت کیا کہ تمہارے ساتھ ایسا کس نے کیا ہے؟ پھر خود ہی کہا کہ فلاں نے، فلاں نے، اس طرح نام لیتے ہوئے ایک یہودی کے نام پر پہنچے تو اس نے سر کے اشارہ سے کہا۔ ہاں! یہودی گرفتار کر لیا گیا۔ اس نے اس جرم کا اقرار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کا سر بھی دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا جائے۔ (بخاری و مسلم) یہ الفاظ مسلم میں ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 999»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الديات، باب من أقاد بالحجر، حديث:6879، ومسلم، القسامة، باب ثبوت القصاص في القتل بالحجر...، حديث:1672.»
تشریح:
1. اس حدیث میں دلیل ہے کہ مقتول کا قصاص بھاری چیزوں‘ پتھروں وغیرہ سے لینا درست ہے‘ صرف لوہے کی چیزوں کے ساتھ قصاص لینا مخصوص نہیں۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے سوا باقی ائمۂ متبوعین کا یہی مذہب ہے۔
2.اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مرد کو عورت کے بدلے میں قتل کیا جائے گا اور قاتل کو اسی طرح قتل کیا جائے گا جس طرح اس نے مقتول کو قتل کیا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 999   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1394  
´جس کا سر پتھر سے کچل دیا گیا ہو اس کی دیت کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک لڑکی زیور پہنے ہوئے کہیں جانے کے لیے نکلی، ایک یہودی نے اسے پکڑ کر پتھر سے اس کا سر کچل دیا اور اس کے پاس جو زیور تھے وہ اس سے چھین لیا، پھر وہ لڑکی ایسی حالت میں پائی گئی کہ اس میں کچھ جان باقی تھی، چنانچہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، آپ نے اس سے پوچھا: تمہیں کس نے مارا ہے، فلاں نے؟ اس نے سر سے اشارہ کیا: نہیں، آپ نے پوچھا: فلاں نے؟ یہاں تک کہ اس یہودی کا نام لیا گیا (جس نے اس کا سر کچلا تھا) تو اس نے اپنے سر سے اشارہ کیا یعنی ہاں! تو یہودی پکڑا گیا، اور اس نے اع۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الديات/حدیث: 1394]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ اہل کوفہ کا مذہب ہے جن میں امام ابوحنیفہ اوران کے اصحاب شامل ہیں ان کی دلیل نعمان بن بشیرکی روایت ہے جو ابن ماجہ میں لَا قودَ إلاَّ بِالسَّيف کے الفاظ کے ساتھ وارد ہے،
لیکن یہ روایت اپنے تمام طرق کے ساتھ ضعیف ہے بلکہ بقول ابوحاتم:
منکرہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1394   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4529  
´قاتل سے قصاص لیے جانے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک لونڈی اپنے زیور پہنے ہوئی تھی اس کے سر کو ایک یہودی نے پتھر سے کچل دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے، ابھی اس میں جان باقی تھی، آپ نے اس سے پوچھا: تجھے کس نے قتل کیا ہے؟ فلاں نے تجھے قتل کیا ہے؟ اس نے اپنے سر کے اشارے سے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا: تجھے کس نے قتل کیا؟ فلاں نے قتل کیا ہے؟ اس نے پھر سر کے اشارے سے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا: کیا فلاں نے کیا ہے؟ اس نے سر کے اشارہ سے کہا: ہاں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4529]
فوائد ومسائل:
اس سے معلوم ہوا کہ قصاص میں قاتل ہی کو قتل کیا جائے گا، چاہے وہ کسی مرد کا قاتل ہو یا عورت کا یہاں عورت کے قصاص میں مرد کو قتل کیا گیا، کیونکہ وہ اس عورت کا قاتل تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4529   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4361  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
اوضاح،
وضح کی جمع ہے،
یہ چاندی کے زیورات کی ایک قسم ہے۔
(2)
رمق:
زندگی کا آخری حصہ یا آخری سانس۔
فوائد ومسائل:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،
اہل شر و فساد پر نظر رکھنی چاہیے،
اور شر و فساد کی صورت میں قرائن کی موجودگی کی بناء پر ان سے پوچھ گچھ بھی ہو سکتی ہے،
لیکن اقرار جرم کے بغیر انہیں مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا،
الا یہ کہ شہادت سے جرم ثابت ہو جائے،
اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے،
قابل فہم اشارہ معتبر اور قابل اعتماد ہے،
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے،
مالکیہ نے یہ کہا ہے،
اگر مقتول،
موت سے پہلے قاتل کی نشاندہی کر دے،
اور اس پر زخم کے نشان موجود ہوں تو اس کا یہ دعویٰ،
اس بات کا قرینہ اور علامت ہو گا،
کہ اس میں اس قاتل کا دخل ہے اس لیے یہ دعویٰ قسامہ کا سبب بنے گا،
اگر اولیائے مقتول اس قاتل کے ہی قاتل ہونے کی قسم اٹھائیں اور قتل عمد کا دعویٰ کریں،
تو اس سے قصاص لیا جائے گا،
لیکن جمہور کے نزدیک،
محض مرنے والے کے دعویٰ کو بینہ قرار نہیں دیا جا سکتا،
یہاں مقتولہ کے بیان پر یہودی کو قتل نہیں کیا گیا،
بلکہ اس کے قتل کے اقرار و اعتراف کی بناء پر قتل کیا گیا ہے۔
(2)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
مرد کو عورت کے بدلہ میں قتل کر دیا جائے گا۔
(3)
ائمہ حجاز اور جمہور علماء نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ قاتل جس آلہ،
ذریعہ اور طریقہ سے قتل کرے،
قصاص میں اسے اس طریقہ یا ذریعہ سے قتل کیا جائے گا،
لیکن احناف کے نزدیک اگر کوئی شخص کسی ثقیل اور بھاری چیز سے عمداً قتل کر دے،
اس میں تیز دھار آلہ استعمال نہ کرے،
مثلا تلوار،
تیر،
خنجر اور چھری،
تو یہ قتل عمد شمار نہیں ہو گا،
شبہ عمد ہو گا،
جس میں دیت مغلظہ ہوتی ہے،
امام ابو حنیفہ،
حسن،
شعبی،
ابن المسیب،
عطاء اور طاؤس کا یہی موقف ہے،
لیکن ائمہ ثلاثہ (مالک،
شافعی،
احمد)

اور صاحبین کے نزدیک اگر آلہ قتل ایسی چیز ہے،
جس سے عموماً زندگی ختم ہو سکتی ہے،
اس کا تیز دھار ہونا شرط نہیں ہے،
جیسے بڑا پتھر،
لاٹھی تو یہ قتل عمد ہے،
جس پر قصاص لازم آئے گا،
نخعی،
زھری،
ابن سیرین،
حماد،
عمرو بن دینار،
ابن لیلیٰ اور اسحاق کا یہی قول ہے۔
(المغني،
ج 11،
ص 447،
الدکتور ترکي)

لیکن خیال رہے احناف کے نزدیک اگر قاتل کا مقصد و ارادہ دوسرے کو قتل کرنا اور اس کی جان لینا ہے،
تو پھر اس کے لیے وہ کوئی بھی آلہ استعمال کرے،
وہ تیز دھار ہو یا ثقیل و بھاری،
تو یہ قتل،
قتل عمد ہو گا،
جس کی سزا،
قصاص ہے،
شبہ عمد نہیں ہو گا،
جس کی سزا بھاری دیت ہے۔
(تکملة،
ج 2،
ص 336)

گویا اختلاف صرف اس صورت میں ہے،
جب قاتل،
قتل کرنے کا اعتراف و اقرار نہ کرے،
تو پھر آلہ قتل کو دیکھا جائے گا،
لیکن آج کے دور کا تقاضا یہی ہے کہ،
قتل میں کسی قسم کا آلہ استعمال کیا جائے،
اور قتل بینہ (شہادت)
سے ثابت ہو جائے،
اس کو قتل عمد قرار دیا جائے،
جس کی اصل سزا قصاص ہے۔
علامہ تقی عثمانی نے اس کو ترجیح دی ہے کہ آج کل جمہور ائمہ اور صاحبین کی رائے پر عمل کرنا چاہیے۔
(تکملة،
ج 2،
ص 338)
(4)
جمہور کے نزدیک قصاص کا طریقہ وہی ہے جس کو ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ قاتل کے ساتھ وہی سلوک اور رویہ اختیار کیا جائے گا،
جو اس نے اختیار کیا تھا،
اگر اس نے کسی کو پتھر سے قتل کیا ہے،
تو اسے پتھر سے قتل کیا جائے گا،
اگر کسی کو پانی میں غرق کیا ہے تو اسے پانی میں ڈبویا جائے گا،
اگر لاٹھی سے قتل کیا ہے،
تو لاٹھی سے قتل کیا جائے گا،
لیکن امام ابو حنیفہ کے نزدیک،
قاتل کو صرف تلوار سے قتل کیا جائے گا،
امام احمد کا ایک قول یہی ہے،
صاحبین اور ثوری کا بھی یہی نظریہ ہے۔
بعض حضرات کے نزدیک تلوار سے قتل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسا آلہ قتل جس سے فوراً جان نکل جائے،
اس لیے احناف کے موقف کے مطابق،
اس کے لیے وہ جدید آلات قتل استعمال کیے جا سکتے ہیں،
جس سے انسان کی فوری طور پر جان نکل جائے اور وہ تڑپ تڑپ کر نہ مرے۔
(تفصیلات کے لیے دیکھئے،
اسلامی قوانین ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن،
حصہ دوم،
بحث قصاص و دیت)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4361