صحيح البخاري
كِتَاب التَّهَجُّد -- کتاب: تہجد کا بیان
1. بَابُ التَّهَجُّدِ بِاللَّيْلِ:
باب: رات میں تہجد پڑھنا۔
وَقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ سورة الإسراء آية 79.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ بنی اسرائیل میں) فرمایا اور رات کے ایک حصہ میں تہجد پڑھ یہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے زیادہ حکم ہے۔
حدیث نمبر: 1120
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَبِي مُسْلِمٍ، عَنْ طَاوُسٍ، سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , قَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ يَتَهَجَّدُ , قَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيِّمُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ لَكَ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَمَنْ فِيهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ الْحَقُّ، وَوَعْدُكَ الْحَقُّ، وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ، وَقَوْلُكَ حَقٌّ، وَالْجَنَّةُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، وَالنَّبِيُّونَ حَقٌّ , وَمُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقٌّ , وَالسَّاعَةُ حَقٌّ، اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ وَبِكَ خَاصَمْتُ وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ، فَاغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَوْ لَا إِلَهَ غَيْرُكَ"، قَالَ سُفْيَانُ: وَزَادَ عَبْدُ الْكَرِيمِ أَبُو أُمَيَّةَ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ , قَالَ سُفْيَانُ: قَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ أَبِي مُسْلِمٍ، سَمِعَهُ مِنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سلیمان بن ابی مسلم نے بیان کیا، ان سے طاؤس نے اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات میں تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ دعا پڑھتے۔ «اللهم لك الحمد أنت قيم السموات والأرض ومن فيهن ولك الحمد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لك ملك السموات والأرض ومن فيهن،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولك الحمد أنت نور السموات والأرض،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولك الحمد أنت الحق،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ووعدك الحق،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولقاؤك حق،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وقولك حق،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ والجنة حق،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ والنار حق،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ والنبيون حق،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ومحمد صلى الله عليه وسلم حق،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ والساعة حق،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم لك أسلمت،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وبك آمنت وعليك توكلت،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإليك أنبت،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وبك خاصمت،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإليك حاكمت،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فاغفر لي ما قدمت وما أخرت،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وما أسررت وما أعلنت،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أنت المقدم وأنت المؤخر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏لا إله إلا أنت، لا إله غيرك» (ترجمہ) اے میرے اللہ! ہر طرح کی تعریف تیرے ہی لیے زیبا ہے، تو آسمان اور زمین اور ان میں رہنے والی تمام مخلوق کا سنبھالنے والا ہے اور حمد تمام کی تمام بس تیرے ہی لیے مناسب ہے آسمان اور زمین اور ان کی تمام مخلوقات پر حکومت صرف تیرے ہی لیے ہے اور تعریف تیرے ہی لیے ہے، تو آسمان اور زمین کا نور ہے اور تعریف تیرے ہی لیے زیبا ہے، تو سچا ہے، تیرا وعدہ سچا، تیری ملاقات سچی، تیرا فرمان سچا ہے، جنت سچ ہے، دوزخ سچ ہے، انبیاء سچے ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں اور قیامت کا ہونا سچ ہے۔ اے میرے اللہ! میں تیرا ہی فرماں بردار ہوں اور تجھی پر ایمان رکھتا ہوں، تجھی پر بھروسہ ہے، تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں، تیرے ہی عطا کئے ہوئے دلائل کے ذریعہ بحث کرتا ہوں اور تجھی کو حکم بناتا ہوں۔ پس جو خطائیں مجھ سے پہلے ہوئیں اور جو بعد میں ہوں گی ان سب کی مغفرت فرما، خواہ وہ ظاہر ہوئی ہوں یا پوشیدہ۔ آگے کرنے والا اور پیچھے رکھنے والا تو ہی ہے۔ معبود صرف تو ہی ہے۔ یا (یہ کہا کہ) تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ ابوسفیان نے بیان کیا کہ عبدالکریم ابوامیہ نے اس دعا میں یہ زیادتی کی ہے ( «لا حول ولا قوة إلا بالله») سفیان نے بیان کیا کہ سلیمان بن مسلم نے طاؤس سے یہ حدیث سنی تھی، انہوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 165  
´رات کے آخری پہر، اللہ سے دعا مانگنا `
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا قام إلى الصلاة من جوف الليل يقول: اللهم لك الحمد انت نور السموات والارض . . .»
. . . جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری تہائی حصے میں نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو کہتے: اے میرے اللہ! حمد و ثنا تیری ہی ہے اور تو ہی آسمانوں اور زمین کا نور (منور کرنے والا) ہے حمد و ثنا تیری ہی ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 165]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 769، من حديث ما لك به ورواه سليمان الحول عن طاوس به عند مسلم وهٰذا متابعة تامة والحمد لله]

تفقه
«قَّيام، قَّيوم، قّيم» کا ایک ہی مطلب ہے یعنی قائم رکھنے والا جس کے علم سے زمین و آسان قائم ہیں۔
➋ انتہائی خشوع و خضوع سے اللہ کی حمد و ثنا بیان کر کے اس سے دعا مانگنی چاہئے۔
➌ رات کے آخری پہر، اللہ سے دعا مانگنا انتہائی پسندیدہ کام اور اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
➍ بعض دعائیں رات کی نماز (تہجد) میں پڑھی جاتی ہیں، مذکورہ دعا بھی انہی میں سے ایک ہے۔ یہ دعائے افتتاح مثلاً: «اللهم باعد بيني» يا «سبحانك اللهم» کے بعد یا پھر اس کی جگہ مذکورہ دعا پڑھی جائے گی۔ واللہ اعلم
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 111   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 771  
´نماز کے شروع میں کون سی دعا پڑھی جائے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ دعا پڑھتے: «اللهم لك الحمد أنت نور السموات والأرض ولك الحمد أنت قيام السموات والأرض ولك الحمد أنت رب السموات والأرض ومن فيهن أنت الحق وقولك الحق ووعدك الحق ولقاؤك حق والجنة حق والنار حق والساعة حق اللهم لك أسلمت وبك آمنت وعليك توكلت وإليك أنبت وبك خاصمت وإليك حاكمت فاغفر لي ما قدمت وأخرت وأسررت وأعلنت أنت إلهي لا إله إلا أنت» اے اللہ! تیرے لیے حمد و ثنا ہے، تو ہی آسمانوں اور زمین کا نور ہے، تیرے لیے حمد و ثنا ہے، تو ہی آسمانوں اور زمین کو قائم رکھنے والا ہے، تیرے لیے حمد و ثنا ہے، تو آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے، سب کا رب ہے، تو حق ہے، تیرا قول حق ہے، تیرا وعدہ حق ہے، تجھ سے ملاقات حق ہے، جنت حق ہے، جہنم حق ہے اور قیامت حق ہے، اے اللہ! میں تیرا فرماں بردار ہوا، تجھ پر ایمان لایا، صرف تجھ پر بھروسہ کیا، تیری ہی طرف توبہ کی، تیرے ہی لیے جھگڑا کیا، اور تیری ہی طرف فیصلہ کے لیے آیا، تو میرے اگلے اور پچھلے، چھپے اور کھلے سارے گناہ معاف فرما، تو ہی میرا معبود ہے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 771]
771۔ اردو حاشیہ:
تمام ہی نمازوں میں ثناءکے موقع پر اس دعا کا پڑھنا مستحب ہے، بالخصوص تہجد میں، اس دعا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس انداز سے اظہار عبودیت کیا ہے وہ آپ ہی کا مقام ہے۔ ان میں ایمان اسلام اور احسان کا خلاصہ آ گیا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 771   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1355  
´رات میں آدمی جاگے تو کیا دعا پڑھے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات میں تہجد پڑھتے تو یہ دعا پڑھتے: «اللهم لك الحمد أنت نور السموات والأرض ومن فيهن ولك الحمد أنت قيام السموات والأرض ومن فيهن ولك الحمد أنت مالك السموات والأرض ومن فيهن ولك الحمد أنت الحق ووعدك حق ولقاؤك حق وقولك حق والجنة حق والنار حق والساعة حق والنبيون حق ومحمد حق اللهم لك أسلمت وبك آمنت وعليك توكلت وإليك أنبت وبك خاصمت وإليك حاكمت فاغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت أنت المقدم وأنت المؤخر لا إله إلا أنت ولا إله غيرك ولا حول ولا قوة إلا بك» اے اللہ! تیری حمد و ث۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1355]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نماز تہجد کے لئے جاگیں تو پہلے یہ دعا پڑھیں۔
پھر وضو وغیرہ کرکےنماز شروع کریں۔

(2)
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب انوار اسی کے دیئے ہوئے اور پیدا کیے ہوئے ہیں۔
اللہ کی ذات کی تجلی برداشت کرنا اس دنیا میں تو پہاڑ کے لئے بھی ممکن نہیں البتہ جنت میں مومنوں کو اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا۔
جیسے کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، باب معرفة طریق الرویة، حدیث: 182)

(3)
تو حق ہے۔
اس میں اللہ کے وجود کا اقرار بھی ہے۔
اور یہ اظہار بھی کہ اس کے تمام احکام درست ہیں۔
خواہ ہمیں ان کی حکمت کا علم ہو یا نہ ہو۔

(4)
اللہ کے وعدوں سےمراد وہ امور ہیں۔
جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے کہ فلاں کام کا یہ ثواب ہے۔
اور فلاں کام کے نتیجے میں دنیا وآخرت میں یہ سزا ملے گی۔

(5)
اللہ کی ملاقات سے مراد یہ ہے کہ موت کے بعد جی اٹھنا یقینی ہے۔
جس کے بعد اپنی زندگی کے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔
اور یہ مطلب بھی ہے کہ جنت میں اللہ تعالیٰ کی زیارت ہوگی۔

(6)
اللہ کے فرمان کے حق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کے ذریعے سے ہمیں ماضی کے جو واقعات بتائے ہیں۔
وہ یقیناً اس طرح پیش آئے تھے۔
جس طرح بیان کئے گئے ہیں اسی میں کائنات کی تخلیق کے مسائل بھی آ جاتے ہیں۔
اورانبیاء کرام کا اپنی اقوام کو تبلیغ کرنا ایذائوں پر صبر کرنا قوم میں سے انکار کرنے والوں پر عذاب آنا وغیرہ بھی شامل ہیں۔
اس میں وہ ابدی اور دائمی قوانین بھی شامل ہیں۔
جو انبیاء کرام علیہ السلام کے ذریعے سے ہمیں بتائے گئے ہیں۔
مثلاً ﴿مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ﴾  (النساء: 123)
 جو شخص برا کام ہوگا۔
اسے اس کی سزا مل جائے گی اور (مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ وَمَا زَادَ اللَّهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ) (صحیح مسلم، البر والصلة والأدب، باب استحباب العفو والتواضع، حدیث: 2588)
 صدقہ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا اور معاف کرنے سے اللہ بندے کی عزت ہی میں اضافہ فرماتا ہے اور جو کوئی بھی اللہ کی رضا کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اسے ضرور بلندی عطا فرماتا ہے۔

(7)
جنت اور جہنم کے حق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حقیقت میں موجود ہیں۔
ان کا ذکر تشبیہ اور استعارہ کے طورپر نہیں کیا گیا ان کی نعمتو ں اور عذاب کی جو تفصیل قرآن مجید اور صحیح احادیث میں وار د ہے وہ شک وشبہ سے بالاتر ہے۔

(8)
  قیامت حق ہے۔
یعنی اس لے لئے اللہ نے جو وقت مقرر کیا ہے۔
اس وقت یقیناً آئے گی۔
اور اس کی جو تفصیلات قرآن وحدیث میں مذکور ہیں وہ سب یقینی ہیں۔

(9)
تمام انبیاء کرام اور بالخصوص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ تمام حضرات اپنے اپنے وقت پر اللہ کی طرف سے مبعوث ہوئے وہ سچے تھے۔
اور کردار کی تمام خوبیوں کے حامل اور ہرقسم کی عملی اور اخلاقی کمزوریوں سے پاک تھے۔
انھوں نے اللہ کے احکام اپنی اپنی امت تک پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔
اور اپنی طرف سے مسائل گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب نہیں کئے۔

(10) (محمد حق)
تک وہ عقیدہ بیان ہوا ہے جو ہر مسلمان کو رکھنا چاہیے۔
اور اس کے بعد ایک مخلص مومن کا اللہ کے ساتھ تعلق اور اس کے مختلف پہلو اجاگر کیے گئے ہیں۔

(11)
یہ دعا اس لحاظ سے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔
کہ اس میں صحیح عقیدے کا اقرار۔
اللہ کے صحیح تعلق کی وضاحت اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا اور آخر میں پھر اللہ کی تعریف اور اپنے عجز کا اظہار ہے رات کے آخری حصے کی تنہائی میں جب بندہ اللہ کے سامنے عبودیت کا اس انداز سے اظہار کرتا ہے۔
تویقیناً اسے اللہ کی رضا اور قرب کے عظیم درجات حاصل ہوتے ہیں۔
وباللہ التوفیق
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1355   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3418  
´رات میں نماز تہجد پڑھنے کے لیے اٹھے تو کیا کہے؟`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات میں تہجد کے لیے اٹھتے تو یہ دعا پڑھتے: «اللهم لك الحمد أنت نور السموات والأرض ولك الحمد أنت قيام السموات والأرض ولك الحمد أنت رب السموات والأرض ومن فيهن أنت الحق ووعدك الحق ولقاؤك حق والجنة حق والنار حق والساعة حق اللهم لك أسلمت وبك آمنت وعليك توكلت وإليك أنبت وبك خاصمت وإليك حاكمت فاغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت أنت إلهي لا إله إلا أنت» اے اللہ! تیرے ہی لیے سب تعریف ہے تو ہی آسمانوں اور زمین کا نور ہے، (اور آسمان و زمین کے درمیان روشنی پی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3418]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے اللہ! تیرے ہی لیے سب تعریف ہے تو ہی آسمانوں اور زمین کا نور ہے،
(اور آسمان وزمین کے درمیان روشنی پیدا کرنے والا) تیرے ہی لیے سب تعریف ہے تو ہی آسمانوں اور زمین کو قائم کرنے والا ہے،
تیرے لیے ہی سب تعریف ہے تو آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے سب کا رب ہے،
تو حق ہے تیرا وعدہ حق (سچا) ہے تیری ملاقات حق ہے،
جنت حق ہے جہنم حق ہے،
قیامت حق ہے۔
اے اللہ! میں نے اپنے کو تیرے سپرد کر دیا،
اور تجھ ہی پر ایمان لایا،
اور تجھ ہی پر بھروسہ کیا،
اور تیری ہی طرف رجوع کیا،
اور تیرے ہی خاطر میں لڑا اور تیرے ہی پاس فیصلہ کے لیے گیا۔
اے اللہ! میں پہلے جو کچھ کر چکا ہوں اور جو کچھ بعد میں کروں گا اور جو پوشیدہ کروں اور جو کھلے عام کروں میرے سارے گناہ اور لغزشیں معاف کر دے،
تو ہی میرا معبود ہے،
اور تیرے سوا میرا کوئی معبود برحق نہیں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3418   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1120  
1120. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب رات کے وقت تہجد پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ دعا پڑھتے: اے اللہ! تو ہی تعریف کے لائق ہے۔ تو ہی آسمان و زمین اور جو ان میں ہے انہیں سنبھالنے والا ہے۔ تیرے ہی لیے تعریف ہے۔ تیرے ہی لیے زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے ان کی سربراہی ہے۔ تیرے ہی لیے تعریف ہے۔ تو ہی آسمان و زمین کا نور ہے۔ تو ہی ہر طرح کی تعریف کا سزاوار ہے۔ تو ہی آسمان و زمین کا بادشاہ ہے۔ تیرے ہی لیے تعریف لائق ہے، تو خود بھی سچا ہے۔ اور تیرا وعدہ بھی سچا ہے تیری ملاقات یقینی اور تیری بات برحق ہے۔ جنت اور دوزخ برحق، تمام انبیاء برحق اور حضرت محمد ﷺ بھی برحق ہیں، نیز قیامت برحق ہے۔ اے اللہ! میں تیرا فرماں بردار اور تجھ پر ایمان لایا ہوں، تجھ ہی پر بھروسا کرتا اور تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں۔ تیری ہی مدد کے ساتھ مخالفین سے برسرپیکار ہوں اور تجھ ہی سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1120]
حدیث حاشیہ:
مسنون ہے کہ تہجد کی نماز کے لیے اٹھنے والے خوش نصیب مسلمان اٹھتے ہی پہلے یہ دعا پڑھ لیں۔
لفظ تہجد باب تفعل کا مصدر ہے، اس کا مادہ ہجود ہے۔
علامہ قسطلانی ؒ فرماتے ہیں:
أصله ترك الھجود وھو النوم قال ابن فارس المتھجد المصلي لیلا فتھجد به أي اترك الھجود للصلٰوة۔
یعنی اصل اس کا یہ ہے کہ رات کو سونا نماز کے لیے ترک دیا جائے۔
پس اصطلاحی معنی متہجد کے مصلّی (نمازی)
کے ہیں جو رات میں اپنی نیند کو خیرباد کہہ کر نماز میں مشغول ہو جائے۔
اصطلاح میں رات کی نماز کو نماز تہجد سے موسوم کیا گیا۔
آیت شریفہ کے جملہ نافلة لك کی تفسیر میں علامہ قسطلانی لکھتے ہیں۔
فریضة زائدة لك علی الصلوات المفروضة خصصت بھامن بین أمتك روی الطبراني بإسناد ضعیف عن ابن عباس أن النافلةَ للنبيِ صلی اللہ علیه وسلم خاصة لأنهُ أَمرَ بقیامِ اللیلِ وکتب علیهِ دونَ أُمتهِ۔
یعنی تہجد کی نماز آنحضرت ﷺ کے لیے نماز پنجگانہ کے علاوہ فرض کی گئی اور آپ کو اس بارے میں امت سے ممتاز قرار دیا گیا کہ امت کے لیے یہ فرض نہیں مگر آپ پر فرض ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے بھی لفظ نافلة لك کی تفسیر میں فرمایا کہ یہ خاص آپ کے لیے بطور ایک فرض نماز کے ہے۔
آپ رات کی نماز کے لیے مامور کیے گئے اور امت کے علاوہ آپ پر اسے فرض قرار دیا گیا لیکن امام نووی ؒ نے بیان کیا کہ بعد میں آپ کے اوپر سے بھی اس کی فرضیت کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔
بہرحال نماز تہجد فرائض پنجگانہ کے بعد بڑی اہم نماز ہے جو پچھلی رات میں ادا کی جاتی ہے اور اس کی گیارہ رکعات ہیں جن میں آٹھ رکعتیں دو دو کرکے سلام سے ادا کی جاتی ہیں اورآخر میں تین وتر پڑھے جاتے ہیں۔
یہی نماز رمضان میں تراویح سے موسوم کی گئی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1120   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1120  
1120. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب رات کے وقت تہجد پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ دعا پڑھتے: اے اللہ! تو ہی تعریف کے لائق ہے۔ تو ہی آسمان و زمین اور جو ان میں ہے انہیں سنبھالنے والا ہے۔ تیرے ہی لیے تعریف ہے۔ تیرے ہی لیے زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے ان کی سربراہی ہے۔ تیرے ہی لیے تعریف ہے۔ تو ہی آسمان و زمین کا نور ہے۔ تو ہی ہر طرح کی تعریف کا سزاوار ہے۔ تو ہی آسمان و زمین کا بادشاہ ہے۔ تیرے ہی لیے تعریف لائق ہے، تو خود بھی سچا ہے۔ اور تیرا وعدہ بھی سچا ہے تیری ملاقات یقینی اور تیری بات برحق ہے۔ جنت اور دوزخ برحق، تمام انبیاء برحق اور حضرت محمد ﷺ بھی برحق ہیں، نیز قیامت برحق ہے۔ اے اللہ! میں تیرا فرماں بردار اور تجھ پر ایمان لایا ہوں، تجھ ہی پر بھروسا کرتا اور تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں۔ تیری ہی مدد کے ساتھ مخالفین سے برسرپیکار ہوں اور تجھ ہی سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1120]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کے ظاہر سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو مذکورہ دعا پڑھتے بلکہ امام ابن خزیمہ ؒ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:
رسول اللہ ﷺ مذکورہ دعا تکبیر تحریمہ کے بعد پڑھتے تھے۔
ان کی بیان کردہ روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ أکبر کہنے کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے۔
(2)
واضح رہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے جب اپنی خالہ ام المومنین حضرت میمونہ ؓ کے گھر میں رات گزاری تھی تو اس وقت انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے مذکورہ دعا سنی تھی۔
(فتح الباري: 6/3) (3)
امام بخاری ؒ نے روایت کے آخر میں سفیان کے حوالے سے راوئ حدیث سلیمان کا حضرت طاؤس سے سماع ثابت کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1120