صحيح مسلم
كِتَاب الْقَسَامَةِ وَالْمُحَارِبِينَ وَالْقِصَاصِ وَالدِّيَاتِ -- قتل کی ذمہ داری کے تعین کے لیے اجتماعی قسموں، لوٹ مار کرنے والوں (کی سزا)، قصاص اور دیت کے مسائل
6. باب مَا يُبَاحُ بِهِ دَمُ الْمُسْلِمِ:
باب: مسلمانوں کا قتل کب درست ہے۔
حدیث نمبر: 4376
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَعَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ كُلُّهُمْ، عَنْ الْأَعْمَشِبِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
عبداللہ بن نمیر، سفیان (ابن عیینہ) اور عیسیٰ بن یونس سب نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی
امام صاحب یہی روایت اپنے چار اساتذہ کی تین سندوں سے، اعمش ہی کی مذکورہ بالا سے بیان کرتے ہیں۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4376  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اسلام انسان کی پانچ چیزوں کی حفاظت کرتا ہے،
اور ان تمام اشیاء اور افعال سے روکتا ہے،
جو ان میں خلل اور فساد و بگاڑ کا باعث بنیں،
اور ان میں بعض کی حفاظت کی خاطر،
وہ لوگ جو ان کی حرمت کو پامال کریں یا ان کے تلف و ضیاع کا باعث ہوں،
ان کو قتل کرنے کی سزا دیتا ہے،
وہ پانچ اصولی اشیاء جن کی اسلام نے حفاظت کی ہے،
اگرچہ ان کی حفاظت کے مدعی دیگر مذاہب یا انسانی وضعی قوانین بھی ہیں،
لیکن ان کے اندر وہ جامعیت اور تاثیر نہیں ہے،
جو اسلامی قوانین میں ہے۔
(1)
دین (2)
انسانی جان (3)
مال (4)
نسل یعنی انسانی عزت و ناموس (5)
عقلاسلام چونکہ خالق کائنات اور خالق انسان کا دین یا دستور زندگی ہے،
اس لیے جو انسان اس کو قبول کرتا ہے،
لیکن پھر اس کا انکار کر دیتا ہے،
یا دعویٰ اسلام کے باوجود الحاد و زنادقہ اختیار کر کے،
ضروریات دین جن کا اسلامی امر ہونا قطعی اور یقینی ہے،
ان کا انکار کرتا ہے،
وہ مرتد ہے،
اسلام کا انکار کر کے (یا ضروریات دین کا انکار کر کے مسلمانوں کے اجماع کو چھوڑ کر)
اگر وہ اس پر اصرار کرتا ہے،
تو آدمی ہونے کی صورت میں وہ بالاتفاق واجب القتل ہے،
اور جمہور کے نزدیک اگر وہ عورت ہے،
تب بھی واجب القتل ہے،
اور صحیح موقف یہی ہے،
لیکن امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس کو قید میں ڈالا جائے گا،
اور اس کو اسلام کی طرف رجوع کرنے پر مجبور کیا جائے گا،
وہ اسلام کی طرف لوٹ آئے یا پھر قید میں مر جائے۔
اس طرح جو انسان زنا کا ارتکاب کرتا ہے،
وہ نسل انسانی کی حرمت کو پامال کرتا ہے،
اپنے اور دوسرے خاندان کی عزت و ناموس کو تباہ کرتا ہے،
اس لیے اگر وہ غیر شادی شدہ ہے،
تو پھر اس کو سو کوڑے لگائے جائیں گے،
اور ایک سال کے لیے جلا وطن کیا جائے گا،
(مزید تفصیل آگے آئے گی)
اور اگر شادی شدہ ہے،
تو اس کو سنگسار کیا جائے گا،
اس پر علمائے امت کا اجماع ہے۔
اس طرح،
جان کی حفاظت کے لیے،
قاتل کی سزا،
قتل رکھی ہے،
تاکہ کوئی کسی کو قتل کرنے کی جرأت نہ کرے،
آج مسلمانوں نے ان اسلامی سزاؤں کو جو حدود ہیں،
اور ان میں تغیر و تبدل کا حق،
کسی شخص یا جماعت بلکہ پوری امت کو بھی حاصل نہیں ہے،
چونکہ نظرانداز کر دیا ہے،
بلکہ ایسے نام نہاد دانشور بھی موجود ہیں،
جو ان کو وحشیانہ سزائیں یا ظالمانہ سزائیں قرار دیتے ہیں،
اس کا نتیجہ ہے کہ دہشت گردی،
قتل و غارت،
اغوا،
زنا،
الحاد و ارتداد کا دروازہ جوپٹ کھلا ہے،
اور ان کے مرتکب ہر طرف دندناتے پھرتے ہیں،
اور انسانی دین،
جان و مال اور عزت و ناموس کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہی ہے،
اور یہ چیزیں سرعام نیلام ہو رہی ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4376