صحيح مسلم
كِتَاب الْقَسَامَةِ وَالْمُحَارِبِينَ وَالْقِصَاصِ وَالدِّيَاتِ -- قتل کی ذمہ داری کے تعین کے لیے اجتماعی قسموں، لوٹ مار کرنے والوں (کی سزا)، قصاص اور دیت کے مسائل
11. باب دِيَةِ الْجَنِينِ وَوُجُوبِ الدِّيَةِ فِي قَتْلِ الْخَطَإِ وَشِبْهِ الْعَمْدِ عَلَى عَاقِلَةِ الْجَانِي:
باب: پیٹ کے بچے کی دیت اور قتل خطا اور شبہ عمد کی دیت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4394
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا مُفَضَّلٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ نُضَيْلَةَ ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ " أَنَّ امْرَأَةً قَتَلَتْ ضَرَّتَهَا بِعَمُودِ فُسْطَاطٍ، فَأُتِيَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَضَى عَلَى عَاقِلَتِهَا بِالدِّيَةِ وَكَانَتْ حَامِلًا فَقَضَى فِي الْجَنِينِ بِغُرَّةٍ، فَقَالَ بَعْضُ عَصَبَتِهَا: أَنَدِي مَنْ لَا طَعِمَ وَلَا شَرِبَ وَلَا صَاحَ فَاسْتَهَلَّ وَمِثْلُ ذَلِكَ يُطَلُّ، قَالَ: فَقَالَ: سَجْعٌ كَسَجْعِ الْأَعْرَابِ "،
مفضل نے منصور سے، انہوں نے ابراہیم سے، انہوں نے عبید بن نضیلہ سے اور انہوں نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: ایک عورت نے اپنی سوتن کو خیمے کی لکڑی سے قتل کر دیا، اس (معاملے) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا تو آپ نے اس عورت کے عاقلہ پر دیت عائد ہونے کا فیصلہ فرمایا اور چونکہ وہ حاملہ (بھی) تھی تو آپ نے پیٹ کے بچے کے بدلے میں ایک غلام (بطور تاوان دیے جانے) کا فیصلہ کیا، اس پر اس کے عصبہ (جدی مرد رشتہ داروں) میں سے کسی نے کہا: کیا ہم اس کی دیت دیں جس نے نہ کھایا، نہ پیا، نہ چیخا، نہ چلایا، اس طرح کا (خون) تو رائیگاں ہوتا ہے، کہا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا بدوؤں کی سجع جیسی سجع ہے؟"
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے اپنی سوکن کو خیمہ کی چوب (لکڑی) سے قتل کر ڈالا، مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاتلہ کے عاقلہ پر دیت ڈالی اور مقتولہ حاملہ تھی تو اس کے جنین کے بدل میں غرة ڈالا تو اس کے بعض عصبہ نے کہا کہ کیا ہم اس کی دیت ادا کریں، جس نے کھایا نہ پیا اور نہ چیخ کر چلایا، ایسے فرد کا خون رائیگاں ہوتا ہے، (اس کی دیت نہیں ہوتی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدوؤں کی طرح قافیہ بندی سے کام لے رہا ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2633  
´دیت عاقلہ (قاتل اور اس کے خاندان والوں) پر ہے ورنہ بیت المال سے دی جائے گی۔`
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا: دیت عاقلہ (قاتل اور اس کے خاندان والوں) کے ذمہ ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2633]
اردو حاشہ:
عاقلہ سے مراد رشتے دار ہیں جو باپ کی طرف سے ہوتے ہیں، یعنی دوھیالی رشتے دار۔ 2۔
عاقلہ میں پہلے بھائی اور بھتیجے وغیرہ آتے ہیں، پھر چچازاد بھائیوں کی اولاد، یعنی ایک دادے کے پوتے، پھر دادے کے بھائیوں کی اولاد وغیرہ۔ 3۔
دیت کو عاقلہ کے ذمے کرنے میں یہ حکمت ہے کہ وہ مل جل کر دیت ادا کرسکتے ہیں، کسی ایک یا چند افراد پر ناقابل برداشت بوجھ نہیں پڑتا۔ 4۔
دیت کو برادری سے وصول کرنے میں یہ بھی حکمت ہے کہ لڑائی جھگڑے میں یہ لوگ عموماً ساتھ دیتے ہیں۔
اور کوئی شخص اگر قتل کرتا ہے اسے یہ خیال ہوتا ہے کہ میری مدد کرنے کے لیے میری برادری موجو د ہے۔
جب ان پر دیت کی ذمے برادری آئے گی تو وہ مجرم کو جرم کے ارتکاب سے روکنے کی کوشش کریں گے، اس کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2633   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1411  
´حمل (ماں کے پیٹ میں موجود بچہ) کی دیت کا بیان۔`
مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ دو عورتیں سوکن تھیں، ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھر یا خیمے کی میخ (گھونٹی) سے مارا، تو اس کا حمل ساقط ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حمل کی دیت میں «غرة» یعنی غلام یا لونڈی دینے کا فیصلہ فرمایا اور دیت کی ادائیگی اس عورت کے عصبہ کے ذمہ ٹھہرائی ۱؎۔ حسن بصری کہتے ہیں: زید بن حباب نے سفیان ثوری سے روایت کی، اور سفیان ثوری نے منصور سے اس حدیث کو اسی طرح روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الديات/حدیث: 1411]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ حدیث قتل کی دوسری قسم شبہ عمد کے سلسلہ میں اصل ہے۔

شبہ عمد:
وہ قتل ہے جس میں قتل کے لیے ایسی چیزوں کا استعمال ہوتاہے جن سے عموماً قتل واقع نہیں ہوتا جیسے:
لاٹھی اور اسی جیسی دوسری چیزیں،
اس میں دیت مغلظہ لی جاتی ہے،
یہ سو اونٹ ہے،
ان میں چالیس حاملہ اونٹیناں ہوں گی،
اس دیت کی ذمہ داری قاتل کے عصبہ پر ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو باپ کی جہت سے قاتل کے قریبی یا دور کے رشتہ دار ہیں،
خواہ اس کے وارثین میں سے نہ ہوں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1411   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4568  
´جنین (ماں کے پیٹ میں پلنے والے بچہ) کی دیت کا بیان۔`
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ ہذیل کے ایک شخص کی دو بیویاں تھیں ان میں سے ایک نے دوسری کو لکڑی سے مار کر اسے اور اس کے پیٹ کے بچے کو قتل کر دیا، وہ لوگ جھگڑا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ان میں سے ایک شخص نے کہا: ہم اس کی دیت کیوں کر ادا کریں جو نہ رویا، نہ کھایا، نہ پیا، اور نہ ہی چلایا، (اس نے یہ بات مقفّٰی عبارت میں کہی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم دیہاتیوں کی طرح مقفّی و مسجّع عبارت بولتے ہو؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں ایک غرہ (لونڈی یا غلام) کی دیت کا فیصلہ کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4568]
فوائد ومسائل:
1: عورت اگر جرم کرے تو اس دیت اس وارثوں کے ذمے ہے۔

2: اگر پیٹ کا بچہ مار دیا گیا تو اس دیت ایک غلام ہے۔

3: جاہلوں کے اندر میں تکلف سے باتیں کرنا معیوب ہے، دوسری روایت میں اسے جہلا ء اور کاہنوں کی سجع سے تشبیہ دی گئی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4568