صحيح البخاري
كِتَاب التَّهَجُّد -- کتاب: تہجد کا بیان
5. بَابُ تَحْرِيضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى صَلاَةِ اللَّيْلِ وَالنَّوَافِلِ مِنْ غَيْرِ إِيجَابٍ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رات کی نماز اور نوافل پڑھنے کے لیے ترغیب دلانا لیکن واجب نہ کرنا۔
حدیث نمبر: 1127
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ , قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ , قَالَ: أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ أَخْبَرَهُ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَقَهُ وَفَاطِمَةَ بِنْتَ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَام لَيْلَةً فَقَالَ: أَلَا تُصَلِّيَانِ؟ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْفُسُنَا بِيَدِ اللَّهِ فَإِذَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَنَا بَعَثَنَا، فَانْصَرَفَ حِينَ قُلْنَا ذَلِكَ وَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيَّ شَيْئًا، ثُمَّ سَمِعْتُهُ وَهُوَ مُوَلٍّ يَضْرِبُ فَخِذَهُ , وَهُوَ يَقُولُ: وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، کہا کہ مجھے زین العابدین علی بن حسین نے خبر دی، اور انہیں حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات ان کے اور فاطمہ رضی اللہ عنہما کے پاس آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم لوگ (تہجد کی) نماز نہیں پڑھو گے؟ میں عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہماری روحیں اللہ کے قبضہ میں ہیں، جب وہ چاہے گا ہمیں اٹھا دے گا۔ ہماری اس عرض پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن واپس جاتے ہوئے میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ران پر ہاتھ مار کر (سورۃ الکہف کی یہ آیت پڑھ رہے تھے) آدمی سب سے زیادہ جھگڑالو ہے «وكان الإنسان أكثر شىء جدلا‏» ۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1127  
1127. حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ ان کے اور اپنی صاجزادی حضرت فاطمہ‬ ؓ ک‬ے پاس تشریف لائے اور فرمایا:تم دونوں نماز (تہجد) کیوں نہیں پڑھتے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہماری جانیں تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں، جب وہ ہمیں اٹھانا چاہتا ہے اٹھا دیتا ہے۔ جب میں نے یہ بات کہی تو آپ واپس ہو گئے اور مجھے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ واپس جاتے ہوئے آپ اپنی ران پر ہاتھ مار رہے تھے اور فرما رہے تھے: انسان سب سے زیادہ جھگڑالو ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1127]
حدیث حاشیہ:
یعنی آپ نے حضرت علی اور حضرت فاطمہ ؓ کو رات کی نماز کی طرف رغبت دلائی، لیکن حضرت علی ؓ کا عذر سن کر آپ چپ ہو گئے۔
اگر نماز فرض ہوتی تو حضرت علی ؓ کا عذر قابل قبول نہیں ہو سکتا تھا۔
البتہ جاتے ہوئے تاسف کا اظہار ضرور کر دیا۔
مولانا وحید الزماں لکھتے ہیں کہ حضرت علی ؓ کا جواب فی الحقیقت درست تھا مگر اس کا استعمال اس موقع پر درست نہ تھا کیونکہ دنیادار کو تکلیف ہے اس میں نفس پر زور ڈال کر تمام اوامر الٰہی کو بجا لانا چاہیے۔
تقدیر پر تکیہ کر لینا اور عبادت سے قاصر ہو کر بیٹھنا اورجب کوئی اچھی بات کا حکم کرے تو تقدیر پر حوالہ کرنا کج بحثی اور جھگڑا ہے۔
تقدیر کا اعتقاد اس لیے نہیں ہے کہ آدمی اپاہج ہو کر بیٹھ رہے اور تدبیر سے غافل ہوجائے۔
بلکہ تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ سب کچھ محنت اور مشقت اور اسباب حاصل کرنے میں کوشش کرے مگر یہ سمجھے رہے کہ ہوگا وہی جو اللہ نے قسمت میں لکھا ہے۔
چونکہ رات کا وقت تھا اور حضرت علی ؓ آپ سے چھوٹے اور داماد تھے، لہٰذا آپ نے اس موقع پر تطویل بحث اور سوال جواب کو نامناسب سمجھ کر جواب نہ دیا مگر آپ ﷺ کو اس جواب سے افسوس ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1127   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1127  
1127. حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ ان کے اور اپنی صاجزادی حضرت فاطمہ‬ ؓ ک‬ے پاس تشریف لائے اور فرمایا:تم دونوں نماز (تہجد) کیوں نہیں پڑھتے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہماری جانیں تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں، جب وہ ہمیں اٹھانا چاہتا ہے اٹھا دیتا ہے۔ جب میں نے یہ بات کہی تو آپ واپس ہو گئے اور مجھے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ واپس جاتے ہوئے آپ اپنی ران پر ہاتھ مار رہے تھے اور فرما رہے تھے: انسان سب سے زیادہ جھگڑالو ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1127]
حدیث حاشیہ:

سنن نسائی کی روایت میں یہ واقعہ تفصیل سے بیان ہوا ہے:
حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رات کے وقت رسول اللہ ﷺ میرے اور اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ ؓ کے پاس آئے اور ہمیں نماز تہجد کے لیے اٹھایا، پھر واپس اپنے گھر چلے گئے اور کچھ رات تک نماز پڑھتے رہے لیکن ہمارے بیدار ہونے اور نماز پڑھنے کے متعلق کوئی حس و حرکت نہ سنی، اس لیے دوبارہ تشریف لائے، ہمیں اٹھایا اور نماز پڑھنے کے متعلق فرمایا۔
میں نے اپنی آنکھوں کو ملتے ہوئے کہا:
اللہ کے رسول ﷺ! ہم تو اتنی دیر ہی نماز پڑھ سکتے ہیں جس قدر اللہ تعالیٰ نے ہماری تقدیر میں لکھا ہے اور ہماری جانیں تو اللہ کے قبضے میں ہیں۔
یہ سن کر رسول اللہ ﷺ واپس ہو گئے اور کچھ جواب نہ دیا، البتہ اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے یہ ضرور فرمایا:
انسان بہت ہی جھگڑالو ہے۔
(سنن النسائي، قیام اللیل، حدیث: 1813) (2)
تقدیر کے بہانے ترک عمل کو قرآن کریم نے جدل سے تعبیر کیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کے تقدیر پر بھروسا کرنے کو پسند نہیں فرمایا، کیونکہ اگر کسی کو کوئی کام کرنے کی طاقت نہ ہو تو وہ معذور ہے مگر جو شخص اپنے آپ کو قدرت کے باوجود عمل کے لیے تیار نہیں کرتا بلکہ تقدیر کا بہانہ بنا کر پست ہمتی کا شکار ہوتا ہے تو وہ مجادل ہے، معذور نہیں۔
رسول اللہ ﷺ کا انہیں بار بار بیدار کرنا نماز تہجد کے متعلق ترغیب کو ثابت کرتا ہے، لیکن انہیں اس کے ترک پر ملامت نہ کرنا اس کے عدم وجوب کی دلیل ہے۔
(3)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام کو اس سلسلے میں سختی سے کام نہیں لینا چاہیے۔
(فتح الباري: 18/3)
رسول اللہ ﷺ حضرت علی ؓ کا جواب سن کر خاموش ہو گئے۔
اگر یہ نماز فرض ہوتی تو حضرت علی ؓ کا عذر قابل قبول نہیں ہو سکتا تھا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1127