صحيح مسلم
كِتَاب الْأَقْضِيَةِ -- جھگڑوں میں فیصلے کرنے کے طریقے اور آداب
2. باب وُجُوبِ الْحُكْمِ بِشَاهِدِ وَّيَمِينٍ
باب: ایک گواہ اور ایک قسم پر فیصلہ کرنا۔
حدیث نمبر: 4472
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا زَيْدٌ وَهُوَ ابْنُ حُبَابٍ ، حَدَّثَنِي سَيْفُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، أَخْبَرَنِي قَيْسُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قَضَى بِيَمِينٍ وَشَاهِدٍ ".
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قسم اور ایک گواہ سے فیصلہ فرمایا۔ (یعنی ایک گواہ کی موجودگی میں مدعی کی قسم کو دوسرے گواہ کا قائم مقام بنایا
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم اور گواہ کی بنیاد پر فیصلہ فرمایا۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4472  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر مدعی اپنے دعویٰ پر ایک گواہ پیش کر دے اور دوسرے گواہ کی جگہ قسم اٹھاوے تو اس کے حق میں فیصلہ کر دیا جائے گا،
ائمہ حجاز (مالک،
شافعی،
احمد)

اس کے قائل ہیں،
خلفائے راشدین اور جمہور کا یہی نظریہ ہے اور حدیث مستقل حجت ہے قرآن مجید،
جس مسئلہ کے بارے میں ساکت (خاموش)
ہے،
وہ اخبار آحاد سے ثابت ہو سکتا ہے،
کیونکہ وہ نسخ نہیں ہے،
بیان ہے،
جیسا کہ خود علامہ تقی نے اس کو قبول کیا ہے اور علامہ عینی سے بھی نقل کیا ہے۔
(تکملہ،
ج 2،
ص 564-565)

اس لیے اس حدیث کو قرآن مجید کے معارض اور مخالف قرار دینا محض تقلید کا شاخسانہ ہے،
کیونکہ قرآن مجید نے نصاب شہادت میں تو دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کے بیان کی گواہی کا تذکرہ کیا ہے اور تیسری صورت ایک گواہ اور قسم سے خاموش ہے،
اس کو حدیث نے بیان کر دیا،
اس طرح شاہد اور یمین پر دلالت کرنے والی پانچ احادیث کو ضعیف قرار دینا سینہ زوری ہے،
اس لیے علامہ تقی نے تسلیم کیا ہے کہ لَا مَجَالا لِإِ نْكْار ثُبُوتِها،
ان کے ثبوت کے انکار کی گنجائش نہیں ہے،
تکملہ،
ج 2،
ص 564۔
اور یہ اخبار آحاد نہیں،
بلکہ بقول علامہ تقی احناف کی اصطلاح کی رو سے مشہور ہیں،
ص 563۔
اور احناف کے اصول کے مطابق خبر مشہور سے قرآنی نص کی تخصیص ہو سکتی ہے،
جبکہ جمہور ائمہ کے نزدیک تخصیص بیان ہے،
نسخ نہیں ہے اور خبر واحد سے تخصیص جائز ہے،
الوجیز،
ص 319 (الوجیز فی اصول الفقه)
الدکتور عبدالکریم زیدان۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4472