صحيح مسلم
كِتَاب الْأَقْضِيَةِ -- جھگڑوں میں فیصلے کرنے کے طریقے اور آداب
3. باب بيان ان حكم الحاكم لا يغير الباطن
باب: حاکم کے فیصلہ سے امر واقعی غلط نہ ہو گا۔
حدیث نمبر: 4473
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَة َ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، فَأَقْضِيَ لَهُ عَلَى نَحْوٍ مِمَّا أَسْمَعُ مِنْهُ، فَمَنْ قَطَعْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا، فَلَا يَأْخُذْهُ فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ بِهِ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ "،
4473. ابومعاویہ نے ہمیں ہشام بن عروہ سے خبر دی، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے اور انہوں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو، ہو سکتا ہے تم میں سے کوئی اپنی دلیل کے ہر پہلو کو بیان کرنے کے لحاظ سے دوسرے کی نسبت زیادہ ذہین و فطین (ثابت) ہو اور میں جس طرح اس سے سنوں اسی طرح اس کے حق میں فیصلہ کر دوں، تو جس کو میں اس کے بھائی کے حق میں سے کچھ دوں وہ اسے نہ لے، میں اس صورت میں اس کے لیے آگ کا ٹکرا کاٹ کر دے رہا ہوں گا۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میرے پاس جھگڑا لاتے ہو اور ہو سکتا ہے تم میں سے بعض، دوسرے کے مقابلہ میں اپنی دلیل بہتر انداز یا فطانت سے پیش کرے تو میں اس کے حق میں، اس سے سننے کے مطابق فیصلہ کر دوں تو جس کو میں نے اس کے بھائی کے حق میں سے کوئی چیز دلوا دی، وہ اس کو نہ لے، کیونکہ میں اس کو اس چیز کی صورت میں آگ کا ایک ٹکڑا دے رہا ہوں۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2317  
´حاکم کا فیصلہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام نہیں کرتا۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ میرے پاس جھگڑے اور اختلافات لاتے ہو اور میں تو ایک انسان ہی ہوں، ہو سکتا ہے تم میں سے کوئی اپنی دلیل بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ چالاک ہو، اور میں اسی کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں جو تم سے سنتا ہوں، لہٰذا اگر میں کسی کو اس کے بھائی کا کوئی حق دلا دوں تو وہ اس کو نہ لے، اس لیے کہ میں اس کے لیے آگ کا ایک ٹکڑا دلاتا ہوں جس کو وہ قیامت کے دن لے کر آئے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2317]
اردو حاشہ:
فوائد  و مسائل:

(1)
قاضی کو فریقین کے دلائل گواہوں کی گواہی اور دیگر قرائن کی روشنی میں صحیح فیصلہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اس کے باوجود اگر اس سے غلط فیصلہ ہو گیا تو اسے گناہ نہیں ہوگا۔

(2)
  اگر ایک شخص کو معلوم ہے کہ اس معاملے میں میرا موقف درست نہیں لیکن قاضی اس کے حق میں فیصلے دے دیتا ہے تو اس سے اصل حقیقت میں فرق نہیں پڑتا لہٰذا اس کے لیے وہ چیز لینا جائز نہیں جسے قاضی اس کی قرار دے چکا ہے۔

(3)
  اس حدیث کی روشنی میں علمائے کرام نے یہ اصول بیان فرمایا ہے:
قاضی کا فیصلہ ظاہراً نافذ ہوتا ہے باطناً نہیں۔
اس کا یہی مطلب ہے کہ قاضی کے فیصلے سے کسی دوسرے کی چیز حلال نہیں ہو جاتی مثلاً اگر جھوٹے گواہوں کی مدد سے یہ فیصلہ لے لیا جائے کہ فلاں عورت کا نکاح ہو چکا ہے تو مرد کے لیے اس عورت کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کرنا جائز نہیں ہو گا۔
اگر وہ ایسا کرے گا تو زنا کا مرتکب ہو گا اور قیامت والے دن اسے اس کی سزا ملے گی۔
اس طرح اگر قاضی یہ فیصلہ کر دے کہ فلاں عورت کو طلاق ہو چکی ہے جبکہ حقیقت میں مرد نے طلاق نہ دی ہو تو مرد اپنی اس بیوی سے ازدواجی تعلقات قائم رکھنے پر اللہ کے ہاں مجرم نہیں ہو گا۔

(4)
  نبی اکرم ﷺ کو علم غیب حاصل نہیں تھا البتہ بعض معاملات میں وحی کے ذریعے سے آپ کو خبر دے دی جاتی تھی۔

(5)
  ناجائز طور پر حاصل کیا ہوا مال قیامت کے دن سزا کا باعث بھی ہو گا اور رسوائی کا سبب بھی، جب مجرم سب لوگوں کےسامنے اپنے جرم کے ثبوت سمیت موجود ہو گا اور اسے اس کے مطابق سرعام سزا ملے گی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2317   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1194  
´(قضاء کے متعلق احادیث)`
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک تم لوگ اپنے جھگڑے میرے پاس لے کر آتے ہو اور تم میں سے بعض اپنے دلائل بڑی خوبی و چرب زبانی سے بیان کرتا ہے تو میں نے جو کچھ سنا ہوتا ہے اسی کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہوں۔ پس جسے اس کے بھائی کے حق میں سے کوئی چیز دوں تو میں اس کے لئے آگ کا ٹکرا کاٹ کر دے رہا ہوں۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1194»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأحكام، باب موعظة الإمام للخصوم، حديث:7169، ومسلم، الأقضية، باب الحكم بالظاهر واللحن بالحجة، حديث:1713.»
تشریح:
1. یہ حدیث اس پر دلیل ہے کہ ظاہر بیانات کی روشنی میں فیصلہ واجب ہے۔
2. حاکم کا فیصلہ کسی چیز کی حقیقت میں کوئی تبدیلی پیدا کر سکتا ہے نہ کسی معاملے کو بدل سکتا ہے‘ یعنی نہ حرام کو حلال کر سکتا ہے اور نہ حلال کو حرام۔
جمہور کا یہی موقف ہے مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ قاضی کا فیصلہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح نافذ ہو جاتا ہے‘ مثلاً: ایک جج جھوٹی شہادت کی بنیاد پر فیصلہ دیتا ہے کہ فلاں عورت فلاں کی بیوی ہے باوجودیکہ وہ خاتون اجنبی ہے تو وہ اس مرد کے لیے حلال ہو جائے گی۔
لیکن اس قول کی قباحت اور اس کا باطل ہونا کسی پر مخفی نہیں ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1194   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1339  
´قاضی کے فیصلے کی بنا پر دوسرے کا مال لینے پر وارد وعید کا بیان۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ اپنا مقدمہ لے کر میرے پاس آتے ہو میں ایک انسان ہی ہوں، ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کوئی آدمی اپنا دعویٰ بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ چرب زبان ہو ۱؎ تو اگر میں کسی کو اس کے مسلمان بھائی کا کوئی حق دلوا دوں تو گویا میں اسے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں، لہٰذا وہ اس میں سے کچھ بھی نہ لے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1339]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اپنی دلیل دوسرے کے مقابلے میں زیادہ اچھے طریقے سے پیش کرسکتا ہے۔

2؎:
یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ ظاہری بیانات کی روشنی میں فیصلہ واجب ہے،
حاکم کا فیصلہ حقیقت میں کسی چیز میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرسکتا،
اورنفس الامر میں نہ حرام کو حلال کرسکتا ہے اور نہ حلال کو حرام،
جمہورکی یہی رائے ہے،
لیکن امام ابوحنیفہ ؒ کا کہنا ہے کہ قاضی کا فیصلہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح نافذ ہوجاتا ہے مثلاً ایک جج جھوٹی شہادت کی بنیادپر فیصلہ دے دیتا ہے کہ فلاں عورت فلاں کی بیوی ہے باوجودیکہ وہ اجنبی ہے تو امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک وہ اس مرد کے لیے حلال ہوجائے گی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1339   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4473  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
أَلحَنَ بِحُجَّتِهِ:
وہ اپنی دلیل کو بہتر طور پر سمجھتا ہو اور زیادہ مؤثر انداز سے پیش کرتا ہو۔
(2)
قطَعْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيْهِ:
میں اس کے بھائی کے حق میں سے اس کو کچھ دلوا دوں یا دے دوں۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
قاضی یا حاکم کا فیصلہ ظاہر کے مطابق ہوتا ہے،
یعنی وہ ظاہری طور پر شاہدوں سے جو کچھ سنتا ہے،
اس کے مطابق فیصلہ کر دیتا ہے اور اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ شاہد جھوٹ بول رہے ہیں،
اس لیے جس مدعی نے اپنا دعویٰ جھوٹے شاہدوں سے ثابت کیا ہے،
اس کو چونکہ معلوم ہے کہ میں نے جھوٹے گواہ پیش کیے ہیں اور معاملہ کی اصل حقیقت وہ نہیں ہے جو میں نے گواہوں کے ذریعہ ثابت کی ہے،
اس لیے اس کو فیصلہ کو اپنے حق میں استعمال نہیں کرنا چاہیے،
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ اصل حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتا،
(حالانکہ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اصل حقیقت سے آگاہ کر سکتا تھا)
تاکہ امت کے سامنے یہ حقیقت واضح رہے کہ عدالت میں جھوٹے گواہ قائم کر کے فیصلہ نافذ العمل ہو گا،
لیکن آخرت میں یہ انسان مجرم ٹھہرے گا اور سزا کا مستحق ہو گا،
جمہور علماء کا نظریہ اس حدیث کے مطابق ہے،
یعنی امام مالک،
شافعی،
احمد،
اوزاعی،
اسحاق،
ابو ثور،
داود اور ابن الحسن رحمہ اللہ کا یہی موقف ہے،
لیکن امام ابو حنیفہ کے نزدیک اگر حاکم نے،
عقد،
فسخ عقد یا طلاق کا فیصلہ،
جھوٹے گواہوں کی گواہی کی بنیاد پر کر دیا تو اس کا فیصلہ ظاہرا اور باطنا (حقیقت واقعہ)
دونوں اعتبار سے نافذ العمل ہو گا،
مثلا دو گواہوں کو انہوں نے ایکا کر کے،
ایک انسان کے بارے میں یہ گواہی دی کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی اور قاضی نے گواہی مان کر میاں بیوی میں جدائی ڈال دی تو گواہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہم نے جھوٹ بولا ہے،
عدت کے گزرنے کے بعد اس سے شادی کر سکتا ہے یا عورت نے جھوٹے گواہ تیار کر کے جھوٹی گواہی دلوائی کہ فلاں مرد نے میرے ساتھ شادی کی ہے اور مجھے آباد نہیں کرتا اور قاضی نے اس نکاح کو تسلیم کر لیا تو وہ عورت اس مرد کے لیے حلال ہو گی؟ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس نے اس سے نکاح نہیں کیا تھا تو جھوٹ سے حقیقت تو تبدیل نہیں ہو گی،
اس لیے ظاہری اعتبار سے تو یہ فیصلہ نافذ العمل ہو گا،
لیکن باطن کے اعتبار سے درست نہیں ہے،
اس لیے وہ عورت حقیقت کے اعتبار سے اس کے لیے جائز نہیں ہے،
وہ حقیقت کے اعتبار سے زانی ہیں،
اگرچہ ظاہر کے اعتبار سے میاں بیوی ہیں اور احناف کا اس کو انشاء قرار دینا،
یعنی گویا کہ قاضی نے نکاح کر دیا ہے،
درست نہیں ہے،
کیونکہ قاضی نے جھوٹی گواہی پر جھوٹے نکاح کو تسلیم کیا ہے،
نیا نکاح نہیں کیا،
شریعت کا اصل مقصود یہ ہے کہ ایک مسلمان ناجائز حربے استعمال نہ کرے،
کیونکہ جب ناجائز حربہ اس کو گناہ اور جرم سے بچا نہیں سکتا اور اس کی اخروی زندگی کی تباہی کا باعث ہے تو اس کو استعمال کیوں کیا جائے اور عجیب بات ہے،
احناف خود اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جھوٹے گواہ قائم کرنا،
ایک حرام کام ہے اور وہ اس سے بہت بڑے گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے،
(تکملہ،
ج 2،
ص 572)

تو پھر یہ باطنا کیسے جاری ہوا،
باطنا تب ہی جاری ہو سکتا تھا،
جب وہ قاضی کے فیصلہ کی بناء پر آخرت کی سزا سے بچ سکتا ہے جو کہ احناف کے نزدیک بھی ممکن نہیں ہے،
اس لیے امام ابو یوسف اور امام محمد کا فتویٰ جمہور کے مطابق ہے اور بعض ائمہ احناف اس کے مطابق فتویٰ دیتے تھے۔
(تکملہ،
ج 2،
ص 571)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4473