صحيح البخاري
كِتَاب التَّهَجُّد -- کتاب: تہجد کا بیان
6. بَابُ قِيَامِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تَرِمَ قَدَمَاهُ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز میں اتنی دیر تک کھڑے رہتے کہ پاؤں سوج جاتے۔
وَقَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا كَانَ يَقُومُ حَتَّى تَفَطَّرَ قَدَمَاهُ وَالْفُطُورُ: الشُّقُوقُ , انْفَطَرَتْ: انْشَقَّتْ.
اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ آپ کے پاؤں پھٹ جاتے تھے۔ «فطور» کے معنی عربی زبان میں پھٹنا اور قرآن شریف میں لفظ «انفطرت» اسی سے ہے یعنی جب آسمان پھٹ جائے۔
حدیث نمبر: 1130
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ زِيَادٍ , قَالَ: سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , يَقُولُ:" إِنْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَقُومُ لِيُصَلِّيَ حَتَّى تَرِمُ قَدَمَاهُ أَوْ سَاقَاهُ , فَيُقَالُ لَهُ: فَيَقُولُ: أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے مسعر نے بیان کیا، ان سے زیاد بن علاقہ نے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اتنی دیر تک کھڑے ہو کر نماز پڑھتے رہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم یا (یہ کہا کہ) پنڈلیوں پر ورم آ جاتا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق کچھ عرض کیا جاتا تو فرماتے کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1419  
´نماز میں قیام لمبا کرنے کا بیان۔`
مغیرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے، یہاں تک کہ آپ کے پیروں میں ورم آ گیا، تو عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ بخش دئیے ہیں (پھر آپ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں (اللہ کا) شکر گزار بندہ نہ بنوں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1419]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
پیغمبرگناہ سے معصوم ہوتے ہیں۔
لیکن اگرفرض کرلیا جائے کہ کوئی گناہ سر زد ہوجائےگا تو اس کو پہلے سے معاف کرنے کا اعلان کردیا گیا۔
اس سے مقصد رسول اللہ ﷺ کے بلند مقام ومرتبہ کا اظہار ہے یا گناہ سےمراد وہ اعمال ہوسکتے ہیں۔
جہاں نبی اکرم ﷺ نے کسی مصلحت کے بنا پر افضل کام کو چھوڑ کر دوسرا جائز کام اختیار فرمایا۔

(2)
اللہ تعالیٰ کسی بندے کو اعلیٰ مقام دے تو اس کو چاہیے کہ شکر کا زیادہ اہتما م کرے۔

(3)
شکر کا بہترین طریقہ عبادت میں محنت کرنا ہے۔
خصوصاً نماز او ر تلاوت قرآن مجید میں۔
نماز تہجد میں یہ دونوں چیزیں ہوتی ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1419   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 412  
´نماز میں خوب محنت اور کوشش کرنے کا بیان۔`
مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے نماز پڑھی یہاں تک کہ آپ کے پیر سوج گئے تو آپ سے عرض کیا گیا: کیا آپ ایسی زحمت کرتے ہیں حالانکہ آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ بخش دئیے گئے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ ۲؎۔ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 412]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی زیادہ دیر تک نفل نماز پڑھنے کا بیان۔

2؎:
تو جب بخشے بخشائے نبی اکرم ﷺ بطور شکرانے کے زیادہ دیر تک نفل نماز پڑھا کرتے تھے یعنی عبادت میں زیادہ سے زیادہ وقت لگاتے تھے تو ہم گنہگار اُمتیوں کو تو اپنے کو بخشوانے اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی طرف مسنون اعمال کے ذریعے اور زیادہ دھیان دینا چاہئے۔
البتہ بدعات سے اجتناب کرتے ہوئے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 412   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1130  
1130. حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ فرماتے ہیں: نبی ﷺ نماز (تہجد) میں اتنا قیام فرماتے کہ آپ کے دونوں پاؤں یا دونوں پنڈلیوں پر ورم آ جاتا۔ اور جب آپ سے اس کے متعلق کہا جاتا تو فرماتے: کیا میں اللہ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1130]
حدیث حاشیہ:
سورۃ مزمل کے شروع نزول کے زمانہ میں آپ ﷺ کا یہی معمول تھا کہ رات کے اکثر حصوں میں آپ عبادت میں مشغول رہتے تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1130   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1130  
1130. حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ فرماتے ہیں: نبی ﷺ نماز (تہجد) میں اتنا قیام فرماتے کہ آپ کے دونوں پاؤں یا دونوں پنڈلیوں پر ورم آ جاتا۔ اور جب آپ سے اس کے متعلق کہا جاتا تو فرماتے: کیا میں اللہ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1130]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے آپ سے عرض کیا تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کے تمام گناہ معاف کر دیے ہیں تو آپ اس قدر مشقت کیوں اٹھاتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا:
میں ایسا اللہ کی شکر گزاری کے طور پر کرتا ہوں۔
اس سے معلوم ہوا کہ شکر گزاری کا ایک طریقہ نماز ہے، نیز معلوم ہوا کہ شکر زبان کے علاوہ عمل سے بھی ادا کرنا چاہیے، کیونکہ زبان سے اعتراف احسان کرتے ہوئے خدمات کی بجا آوری کو شکر کہا جاتا ہے۔
(فتح الباری: 21/3) (2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عبادت کے سلسلے میں اپنے آپ پر سختی کی جا سکتی ہے، خواہ وہ جسمانی تکلیف ہی کا باعث کیوں نہ ہو، کیونکہ جب رسول اللہ ﷺ اس قدر عبادت کرتے تھے، حالانکہ آپ کو علم تھا کہ آپ کے سب گناہ معاف ہیں، تو جس انسان کو اپنے انجام کے متعلق علم نہیں اسے تو بالاولیٰ اسے سرانجام دینا چاہیے۔
یہ اس صورت میں ہے جب کثرت عبادت اور اس پر سختی، دل کی تنگی کا باعث نہ ہو، کیونکہ حدیث میں ہے کہ تم اپنی ہمت کے مطابق اعمال بجا لاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ تو اجر دینے میں تنگ دل نہیں، تم خود ہی عبادت سے تنگ آ کر اسے چھوڑ دیتے ہو۔
(صحیح البخاري، اللباس، حدیث: 5861)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1130