صحيح البخاري
كِتَاب التَّهَجُّد -- کتاب: تہجد کا بیان
7. بَابُ مَنْ نَامَ عِنْدَ السَّحَرِ:
باب: جو شخص سحر کے وقت سو گیا۔
حدیث نمبر: 1131
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ أَوْسٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ:" أَحَبُّ الصَّلَاةِ إِلَى اللَّهِ صَلَاةُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام، وَأَحَبُّ الصِّيَامِ إِلَى اللَّهِ صِيَامُ دَاوُدَ، وَكَانَ يَنَامُ نِصْفَ اللَّيْلِ وَيَقُومُ ثُلُثَهُ وَيَنَامُ سُدُسَهُ، وَيَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ عمرو بن اوس نے انہیں خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ سب نمازوں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ نماز داؤد علیہ السلام کی نماز ہے اور روزوں میں بھی داؤد علیہ السلام ہی کا روزہ۔ آپ آدھی رات تک سوتے، اس کے بعد تہائی رات نماز پڑھنے میں گزارتے۔ پھر رات کے چھٹے حصے میں بھی سو جاتے۔ اسی طرح آپ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1131  
1131. حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو سب نمازوں سے حضرت داود ؑ کی نماز زیادہ پسند ہے اور تمام روزوں میں زیادہ پسندیدہ روزہ بھی حضرت داود ؑ کا ہے۔ وہ نصف رات تک سوئے رہتے، پھر تہائی شب عبادت کرتے، اس کے بعد رات کے چھٹے حصے میں سو جاتے، نیز وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن روزہ نہ رکھتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1131]
حدیث حاشیہ:
رات کے بارہ گھنٹے ہوتے ہیں تو پہلے چھ گھنٹے میں سو جاتے، پھر چا ر گھنٹے عبادت کرتے، پھر دو گھنٹے سورہتے۔
گویا سحر کے وقت سوتے ہوتے یہی ترجمہ باب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1131   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1131  
1131. حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو سب نمازوں سے حضرت داود ؑ کی نماز زیادہ پسند ہے اور تمام روزوں میں زیادہ پسندیدہ روزہ بھی حضرت داود ؑ کا ہے۔ وہ نصف رات تک سوئے رہتے، پھر تہائی شب عبادت کرتے، اس کے بعد رات کے چھٹے حصے میں سو جاتے، نیز وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن روزہ نہ رکھتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1131]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر رات کے بارہ گھنٹے ہوں تو داود ؑ پہلے چھ گھنٹے سوئے رہتے، پھر تہائی شب، یعنی چار گھنٹے عبادت کرتے، اس کے بعد چھٹا حصہ، یعنی دو گھنٹے محو استراحت رہتے، گویا سحری کا وقت سو کر گزار دیتے۔
(2)
عنوان بالا کا مقصد ہے کہ جو شخص سحری کے وقت سویا رہا وہ قابل ملامت نہیں بشرطیکہ رات کی حق ادائیگی پہلے کر چکا ہو۔
اس وقت سونے میں حکمت یہ ہے کہ صبح کی نماز کے لیے نشاط حاصل ہو اور تھکاوٹ وغیرہ دور ہو جائے۔
ایسا کرنا ریا کاری سے بھی بچاؤ کا ذریعہ ہے کیونکہ جو شخص رات کے وقت عبادت کر کے سو جائے تو بیداری کے وقت اس کے چہرے سے عبادت کے اثرات ختم ہو جائیں گے۔
(فتح الباري: 23/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1131