صحيح مسلم
كِتَاب اللُّقَطَةِ -- کسی کو ملنے والی چیز جس کے مالک کا پتہ نہ ہو
1ق. باب مَعْرِفَةِ الْعِفَاصِ وَالْوِكَاءِ وَحُكْمِ ضَالَّةِ الْغَنَمِ وَالإِبِلِ
باب: گمشدہ چیز کا اعلان کرنا اور بھٹکی ہوئی بکری اور اونٹ کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 4506
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ سُوَيْدَ بْنَ غَفَلَةَ " قَالَ: خَرَجْتُ أَنَا وَزَيْدُ بْنُ صُوحَانَ، وَسَلْمَانُ بْنُ رَبِيعَةَ غَازِينَ، فَوَجَدْتُ سَوْطًا فَأَخَذْتُهُ، فَقَالا لِي: دَعْهُ، فَقُلْتُ: لَا وَلَكِنِّي أُعَرِّفُهُ، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهُ وَإِلَّا اسْتَمْتَعْتُ بِهِ، قَالَ: فَأَبَيْتُ عَلَيْهِمَا، فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ غَزَاتِنَا قُضِيَ لِي أَنِّي حَجَجْتُ، فَأَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَلَقِيتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ ، فَأَخْبَرْتُهُ بِشَأْنِ السَّوْطِ وَبِقَوْلِهِمَا، فَقَالَ: إِنِّي وَجَدْتُ صُرَّةً فِيهَا مِائَةُ دِينَارٍ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْتُ بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: عَرِّفْهَا حَوْلًا، قَالَ: فَعَرَّفْتُهَا فَلَمْ أَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ: عَرِّفْهَا حَوْلًا، فَعَرَّفْتُهَا فَلَمْ أَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ: عَرِّفْهَا حَوْلًا، فَعَرَّفْتُهَا فَلَمْ أَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا، فَقَالَ: احْفَظْ عَدَدَهَا وَوِعَاءَهَا وَوِكَاءَهَا، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلَّا فَاسْتَمْتِعْ بِهَا "، فَاسْتَمْتَعْتُ بِهَا، فَلَقِيتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ بِمَكَّةَ، فَقَالَ: لَا أَدْرِي بِثَلَاثَةِ أَحْوَالٍ أَوْ حَوْلٍ وَاحِدٍ،
محمد بن جعفر) غندر نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں شعبہ نے سلمہ بن کہیل سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں نے سوید بن غفلہ سے سنا، انہوں نے کہا: میں، زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ جہاد کے لیے نکلے، مجھے ایک کوڑا ملا تو میں نے اسے اٹھا لیا، ان دونوں نے مجھ سے کہا: اسے رہنے دو۔ میں نے کہا: نہیں، بلکہ میں اس کا اعلان کروں گا، اگر اس کا مالک آ گیا (تو اسے دے دوں گا) ورنہ اس سے فائدہ اٹھاؤں گا۔ کہا: میں نے ان دونوں (کی بات ماننے) سے انکار کر دیا۔ جب ہم اپنی جنگ سے واپس ہوئے (تو) میرے مقدور میں ہوا کہ میں نے حج کرنا ہے، چنانچہ میں مدینہ آیا، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور انہیں کوڑے کے واقعے اور ان دونوں کی باتوں سے آگاہ کیا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مجھے ایک تھیلی ملی جس میں سو دینار تھے، میں اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: "سال بھر اس کی تشہیر کرو۔" میں نے (دوسرا سال) اس کی تشہیر کی تو مجھے کوئی شخص نہ ملا جو اسے پہچان پاتا، میں پھر آپ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: "ایک سال اس کی تشہیر کرو۔" میں نے (پھر سال بھر) اس کی تشہیر کی تو مجھے کوئی شخص نہ ملا جو اسے پہچان پاتا، میں پھر آپ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: "ایک سال اس کی تشہیر کرو۔" میں نے اس کی تشہیر کی تو مجھے کوئی ایسا شخص نہ ملا جو اسے پہچان پاتا۔ تو آپ نے فرمایا: "اس کی تعداد، اس کی تھیلی اور اس کے بندھن کو یاد رکھنا، اس اگر اس مالک آ جائے (تو اسے دے دینا) ورنہ اس سے فائدہ اٹھا لینا۔" پھر میں نے اسے استعمال کیا۔ (شعبہ نے کہا:) اس کے بعد میں انہیں (سلمہ بن کہیل کو) مکہ میں ملا تو انہوں نے کہا: مجھے معلوم نہیں (حضرت اُبی رضی اللہ عنہ نے) تین سال (تشہیر کی) یا ایک سال
حضرت سوید بن غفلہ بیان کرتے ہیں کہ میں، زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ ایک جنگ کے لیے نکلے تو مجھے ایک کوڑا ملا تو میں نے اسے اٹھا لیا، میرے دونوں ساتھیوں نے کہا اسے چھوڑ دو، میں نے کہا نہیں، ہاں میں اس کی تشہیر کروں گا، اگر اس کا مالک آ گیا تو ٹھیک، وگرنہ میں اس سے فائدہ اٹھاؤں گا، اس طرح میں نے ان کی بات نہ مانی تو جب ہم جنگ سے واپس آئے تو میں تقدیر کے فیصلہ سے حج کے لیے نکلا اور میں مدینہ حاضر ہوا اور میری ملاقات حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے ہو گئی تو میں نے انہیں کوڑے کا ماجرہ سنایا اور دونوں ساتھیوں کی بات بتائی تو انہوں نے کہا، مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک تھیلی ملی، جس میں سو دینار تھے اور میں وہ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک سال اس کی تشہیر کرو۔ تو میں نے اس کی تشہیر کی اور مجھے اس کو پہچاننے والا نہ ملا، پھر میں اسے لے کر آپ کے پاس آیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک سال اس کی تشہیر کرو۔ تو میں نے اس کی تشہیر کی اور مجھے اس کی شناخت کرنے والا نہ ملا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی تعداد، اس کی تھیلی اور اس کا بندھن یاد کر لو، اگر اس کا مالک آ گیا تو ٹھیک، وگرنہ اس سے فائدہ اٹھا لینا۔ تو میں نے اس سے فائدہ اٹھایا، شعبہ کہتے ہیں، میں اس کے بعد اپنے استاد سلمہ بن کہیل کو مکہ مکرمہ ملا تو انہوں نے کہا، مجھے یاد نہیں، سوید نے تین سال کہا تھا یا ایک سال۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2506  
´راستہ سے اٹھائی ہوئی گری پڑی چیز کا بیان۔`
سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ میں زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے ساتھ نکلا، جب ہم عذیب پہنچے تو میں نے وہاں ایک کوڑا پڑا ہوا پایا، ان دونوں نے مجھ سے کہا: اس کو اسی جگہ ڈال دو، لیکن میں نے ان کا کہا نہ مانا، پھر جب ہم مدینہ پہنچے، تو میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور ان سے اس کا تذکرہ کیا، تو انہوں نے کہا: تم نے ٹھیک کیا، میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں سو دینار پڑے پائے تھے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سال بھر تک اس کے مالک کا پتہ کرتے رہو، ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب اللقطة/حدیث: 2506]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عام قیمتی چیز کےلیےاعلان کی مدت ایک سال ہے جب کہ زیادہ قیمتی چیز کا اس سے زیادہ مدت تک اعلان کرنا بہتر ہے۔

(2)
معمولی چیز جس کے گم ہونے کی زیادہ پروا نہیں کی جاتی اس کا اعلان نہ کرنا درست ہے۔

(3)
اعلان ایسے متعدد مقامات پرکرنا چاہیے جہاں سے توقع ہو کہ اگر مالک تلاش میں وہاں آیا ہوا ہو تو خود سن لے گا یا اگر اس نے آسں پاس کے لوگوں سے پوچھا ہوگا توان میں سے کوئی نہ کوئی سن کر بتا دے گا کہ فلاں شخص کا مال گم ہوا ہے۔

(4)
آج کل اخبار اور ریڈیو میں اعلان کرنا بھی درست ہے۔
جب مالک آئے تواس سے اعلان کا خرچ وصول کرکے اس کی گم شدہ رقم وغیرہ اسے دے دے۔

(5)
ایک سال کےاعلان کے باوجود اگر مالک نہ آیا تو یہ اعلان کافی ہے اور رقم کو استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اگر بعد میں کبھی مالک آ جائے تو بھی اسے اتنی رقم ادا کرنی چاہیے جیسا کہ آئندہ حدیث میں صراحت ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2506   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1374  
´گری پڑی چیز اور گمشدہ اونٹ اور بکری کا بیان۔`
سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ میں زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے ساتھ نکلا تو مجھے (راستے میں) ایک کوڑا پڑا ملا - ابن نمیر کی روایت میں ہے کہ میں نے پڑا ہوا ایک کوڑا پایا - تو میں نے اسے اٹھا لیا تو ان دونوں نے کہا: اسے رہنے دو، (نہ اٹھاؤ) میں نے کہا: میں اسے نہیں چھوڑ سکتا کہ اسے درندے کھا جائیں، میں اسے ضرور اٹھاؤں گا، اور اس سے فائدہ اٹھاؤں گا۔ پھر میں ابی بن کعب کے پاس آیا، اور ان سے اس کے بارے میں پوچھا اور ان سے پوری بات بیان کی تو انہوں نے کہا: تم نے اچھا کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں، میں نے ایک تھیلی پ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1374]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی تین سال تک پہچان کرانے کا حکم دیا،
اس کی تاویل پچھلی حدیث کے حاشہ میں دیکھیے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1374