صحيح مسلم
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
5. باب جَوَازِ الْخِدَاعِ فِي الْحَرْبِ:
باب: لڑائی میں مکر اور حیلہ درست ہے۔
حدیث نمبر: 4539
وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَاللَّفْظُ لِعَلِيٍّ، وَزُهَيْرٍ، قَالَ عَلِيٌّ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: سَمِعَ عَمْرٌو ، جَابِرًا يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْحَرْبُ خَدْعَةٌ ".
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنگ ایک چال ہے
امام صاحب اپنے تین اساتذہ سے حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لڑائی ایک چال یا تدبیر ہے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1675  
´لڑائی میں جھوٹ دھوکہ اور فریب کی رخصت کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لڑائی دھوکہ و فریب کا نام ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1675]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎:
جنگ ان تین مقامات میں سے ایک ہے جہاں جھوٹ،
دھوکہ اور فریب کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔
لڑائی کے ایام میں جہاں تک ممکن ہو کفار کو دھوکہ دینا جائز ہے،
لیکن یہ ان سے کیے گئے کسی عہد و پیمان کے توڑنے کا سبب نہ بنے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1675   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4539  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
خَدْعَةٌ،
خَدْعَةٌ،
خُدَعَةٌ،
خَدَعَةٌ،
خَدْعَةٌ:
پہلی تین صفات مشہور ہیں،
ہر ایک کا معنی یہ ہے۔
(2)
خَدعَة:
لڑائی ایک ہی چال ہے،
جو وہ چال چل گیا کامیاب ہو گیا۔
(3)
خُدعَة:
لڑائی،
ایک حیلہ اور چال ہے،
ہر فریق اس کو چلنے کی کوشش کرتا ہے گویا یہ مجسمہ حیلہ اور چال ہے۔
(4)
خُدَعَةٌ:
یہ ایک بہت بڑا حیلہ اور تدبیر ہے،
جس میں لوگ پھنس جاتے ہیں،
مختلف آرزوؤں اور تمناؤں کا شکار ہوتے ہیں،
ضروری نہیں ہے کہ وہ پوری ہوں۔
(5)
خَدَعَةٌ:
یہ خادع کی جمع ہے،
یعنی لڑائی چالباز اور حیلہ جو ہے،
ہر فریق دوسرے سے حیلہ کرتا ہے۔
(6)
خِدْعَةٌ:
یہ ایک مخصوص قسم کی چال اور حیلہ ہے۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ لڑائی میں حیلہ،
چال اور تدبیر پر انحصار ہے،
جو بہتر چال چل گیا اس نے بہتر تدبیر اختیار کر لی،
اس کو کامیابی نصیب ہو گی،
اس لیے اس میں آغاز اور ابتدا میں انجام یا نتیجہ کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے،
آغاز میں ایک فریق غالب آ رہا ہوتا ہے،
لیکن انتہاء میں دوسرا فریق غالب آ جاتا ہے اور اس سے بعض ائمہ نے جنگ میں جھوٹ بولنے کو جائز قرار دیا ہے اور بعض نے کہا،
جھوٹ سے مراد تعریض اور کنایہ ہے،
کیونکہ کذب کا لفظ تعریض و کنایہ کے لیے استعمال ہوتا ہے،
جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام قیامت کے دن کہیں گے،
میں نے تین دفعہ جھوٹ یعنی تعریض و کنایہ سے کام لیا اور صحیح یہی معلوم ہوتا ہے،
جہاں تک ممکن ہو جھوٹ سے احتراز کرنا چاہیے اور ضرورت پڑنے پر تعریض اور کنایہ سے فائدہ اٹھانا چاہیے،
الا یہ کہ اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نہ رہے،
پھر توریہ اور تعریض کی جگہ جھوٹ سے کام لیا جا سکتا ہے،
مثلا کسی مسلمان کی زندگی یا اس کا مال جھوٹ بولے بغیر بچ نہ سکتا ہو تو جان و مال بچانے کے لیے اس کی گنجائش ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4539