صحيح مسلم
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
20. باب إِجْلاَءِ الْيَهُودِ مِنَ الْحِجَازِ:
باب: یہودیوں کو حجاز مقدس سے جلاوطن کر دینے کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 4591
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّهُ قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ فِي الْمَسْجِدِ إِذْ خَرَجَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " انْطَلِقُوا إِلَى يَهُودَ، فَخَرَجْنَا مَعَهُ حَتَّى جِئْنَاهُمْ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَادَاهُمْ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ يَهُودَ أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا، فَقَالُوا: قَدْ بَلَّغْتَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ذَلِكَ أُرِيدُ أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا، فَقَالُوا: قَدْ بَلَّغْتَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ذَلِكَ أُرِيدُ، فَقَالَ لَهُمْ: الثَّالِثَةَ فَقَالَ: اعْلَمُوا أَنَّمَا الْأَرْضُ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ، وَأَنِّي أُرِيدُ أَنْ أُجْلِيَكُمْ مِنْ هَذِهِ الْأَرْضِ، فَمَنْ وَجَدَ مِنْكُمْ بِمَالِهِ شَيْئًا فَلْيَبِعْهُ، وَإِلَّا فَاعْلَمُوا أَنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ ".
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ایک بار ہم مسجد میں تھے کہ (اچانک) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: "یہود کی طرف چلو۔" ہم آپ کے ساتھ نکلے حتی کہ ان کے ہاں پہنچ گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، بلند آواز سے انہیں پکارا اور فرمایا: "اے یہود کی جماعت! اسلام قبول کر لو، سلامتی پاؤ گے۔" انہوں نے کہا: اے ابوالقاسم! آپ نے پیغام پہنچا دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "میں یہی (پیغام پہنچانا) چاہتا ہوں، اسلام قبول کر لو، سلامتی پاؤ گے۔" انہوں نے کہا: اے ابوالقاسم! آپ نے پیغام پہنچا دیا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "میں یہی چاہتا ہوں۔" آپ نے ان سے تیسری مرتبہ کہا اور فرمایا: "جان لو! یہ زمین اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تمہیں اس زمین سے جلا وطن کر دوں، تم میں سے جسے اپنے مال کے عوض کچھ ملے تو وہ اسے فروخت کر دے، ورنہ جان لو کہ یہ زمین اللہ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم مسجد میں تھے کہ اس دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: یہودیوں کی طرف چلو۔ تو ہم آپ کے ساتھ چل پڑے حتی کہ ان کے پاس پہنچ گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر ان سے بلند آواز سے فرمایا: اے یہودیوں کی جماعت! اسلام لے آؤ! سلامت رہو گے۔ انہوں نے جواب دیا، اے ابو القاسم! آپ نے پیغام پہنچا دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: یہی میں چاہتا ہوں، اسلام لے آؤ، محفوظ ہو جاؤ گے۔ تو انہوں نے جواب دیا، اے ابو القاسم! آپ نے پیغام پہنچا دیا ہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہی میرا مقصد ہے۔ تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جان لو، یہ زمین تو صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور میں تم کو اس سرزمین سے نکالنا چاہتا ہوں تو جسے اپنے مال کے عوض کچھ ملتا ہو، وہ اسے بیچ دے، وگرنہ جان لو، یہ زمین تو اللہ اور اس کے رسول کی ہے۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6944  
´جس کے ساتھ زبردستی کی جائے`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ فِي الْمَسْجِدِ، إِذْ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" انْطَلِقُوا إِلَى يَهُودَ، فَخَرَجْنَا مَعَهُ حَتَّى جِئْنَا بَيْتَ الْمِدْرَاسِ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَادَاهُمْ: يَا مَعْشَرَ يَهُودَ أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا، فَقَالُوا: قَدْ بَلَّغْتَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، فَقَالَ: ذَلِكَ أُرِيدُ، ثُمَّ قَالَهَا الثَّانِيَةَ، فَقَالُوا: قَدْ بَلَّغْتَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، ثُمَّ قَالَ: الثَّالِثَةَ، فَقَالَ: اعْلَمُوا أَنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ، وَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُجْلِيَكُمْ، فَمَنْ وَجَدَ مِنْكُمْ بِمَالِهِ شَيْئًا فَلْيَبِعْهُ، وَإِلَّا فَاعْلَمُوا أَنَّمَا الْأَرْضُ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم مسجد میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ یہودیوں کے پاس چلو۔ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے اور جب ہم بیت المدراس کے پاس پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز دی اے قوم یہود! اسلام لاؤ تم محفوظ ہو جاؤ گے۔ یہودیوں نے کہا: ابوالقاسم! آپ نے پہنچا دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا بھی یہی مقصد ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ یہی فرمایا اور یہودیوں نے کہا کہ ابوالقاسم آپ نے پہنچا دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ یہی فرمایا۔ اور پھر فرمایا تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے اور میں تمہیں جلا وطن کرتا ہوں۔ پس تم میں سے جس کے پاس مال ہو اسے چاہئے کہ جلا وطن ہونے سے پہلے اسے بیچ دے ورنہ جان لو کہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِكْرَاهِ: 6944]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6944 کا باب: «بَابٌ في بَيْعِ الْمُكْرَهِ وَنَحْوِهِ فِي الْحَقِّ وَغَيْرِهِ:»

باب اورحدیث میں مناسبت:
علامہ خطابی رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب اور حدیث پر اعتراض وارد کیا ہے کہ ان دونوں میں مناسبت موجود نہیں ہے۔ چنانچہ آپ راقم ہیں:
«استدل أبوعبدالله يعني البخاري بحديث أبى هريرة يعني المذكور فى الباب على جواز بيع المكره والحديث ببيع المضطر أشبه.» [فتح الباري لابن حجر: 272/13]

یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیع المکرہ کے جواز پر استدلال فرمایا ہے جب کہ یہ حدیث بیع مضطر کے ساتھ اشبہ ہے، کیوں کہ بیع پر مکرو ہی کسی شئی کا بیع کا حامل ہے اس کی رضا ہو یا نہ ہو۔
یہی اعتراض علامہ عینی رحمہ اللہ نے عمدۃ القاری میں نقل فرمایا ہے۔
چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان اعتراضات پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کے جوابات بھی مہیا کیے ہیں، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے مضطر کی بیع جائز رکھی ہے، اسی لیے آپ نے باب سے اس کا جواز نکالا ہے، مضطر سے مراد وہ شخص ہے جو مفلس ہو کر اپنا مال بیچے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تبصرہ کرتے ہیں:
«قلت لم يقتصر البخاري فى الترجمة على المكره و إنما قال: بيع المكره و نحوه فى الحق فدخل فى ترجمته المضطر، وكأنه أشار إلى الرد على من لا يصح بيع المضطر، و قوله فى آخر كلامه.» [فتح الباري لابن حجر: 272/13]
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں مکرہ پر اقتصار نہیں کیا، صرف یہ کہا: «بيع المكره ونحوه فى الحق» تو اس میں مضطر بھی داخل ہے، گویا ان حضرات کے رد کا اشارہ دیا ہے جو مضطر کی بیع کی صحت کے قائل نہیں ہیں، خطابی رحمہ اللہ کا آخر میں کہنا ہے کہ اگر اس پر مجبور کیا گیا تو یہ جائز نہیں مردود ہے، کیوں کہ یہ حق کے ساتھ اکراہ ہے، علامہ کرمانی رحمہ اللہ نے بھی ان کا تعاقب کیا ہے۔
ان تمام مباحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ترجمۃ الباب کے دو اجزاء ہیں، بیع مکرہ اور بیع مضطر، ترجمۃ الباب کا تعلق دوسرے جزء یعنی بیع مضطر سے ہے لہٰذا مضطر سے مراد یہاں یہ ہے کہ مجبور ہو کر اپنا مال بیچے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودیوں کو ان کا مال بیچنے کا حکم دیا تھا جیسا کہ ترجمۃ الباب اور حدیث کے بیان سے واضح ہے، اور جہاں تک پہلے جزء کا تعلق ہے تو اس کے لیے متن حدیث سے استدلال کو اخذ فرمایا ہے، کیوں کہ بیع المکرہ میں مضطر بالاولی داخل ہو گا، یہی بات حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کی ہے۔ «والله اعلم»
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 261   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3003  
´مدینہ سے یہود کیسے نکالے گئے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم مسجد میں تھے کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف تشریف لے آئے اور فرمانے لگے: یہود کی طرف چلو، تو ہم سب آپ کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ یہود کے پاس پہنچ گئے، پھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور انہیں پکار کر کہا: اے یہود کی جماعت! اسلام لے آؤ تو (دنیا و آخرت کی بلاؤں و مصیبتوں سے) محفوظ ہو جاؤ گے، تو انہوں نے کہا: اے ابوالقاسم! آپ نے اپنا پیغام پہنچا دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پھر یہی فرمایا: «أسلموا تسلموا» انہوں نے پھر کہا: اے ابوالقاسم! آپ نے اپنا پیغام پہنچا دیا، تو ر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3003]
فوائد ومسائل:

رسول اللہ ﷺ نے یہود کی ریشہ دوانیاں ظاہر اور ثابت ہونے کے بعد جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ فرمایا۔
کسی سزا کے اعلان سے پہلے انہیں اسلام لانے کی دعوت دی۔
پھر جلا وطنی کی سزا سے پہلےان کو بتا دیا گیا کہ وہ اپنی جایئدادیں وغیرہ فروخت کرلیں۔
عنقریب سزا نافذ ہوجائے گی۔
گویا آپ کی پوری کوشش تھی کہ یہودکی زیادتیوں کے باوجود مسلمانوں کی طرف سے ان پرکوئی زیادتی نہ ہو۔
اسلام قبول کر لینے میں ہی سلامتی ہے۔
یعنی اسلام قبول کرنے سے ٖغداری جیسے جرم کی پر بھی سزا ختم ہوجاتی ہے۔
اس دنیا میں جان ومال اورآبرو کی اور آخرت میں اللہ کی پکڑ اور عذاب جہنم سے سلامتی ہے۔


زمین اللہ کی ہے کا مفہوم یہ ہے کہ زمین اسی نے پیدا کی ہے۔
اس کا نافذ کرد ہ قانون فطرت نافذ ہے۔
اس کا حقیقی مالک وہی ہے اور اللہ کے رسولﷺ اللہ کی طرف سے خلیفہ ہیں۔
کہ اس میں اس کی شریعت نافذ کریں۔


شرعی حق کے نفاذ کی غرض سے کس کو اپنا مال فروخت کرنے پر آمادہ کرنا جائز اور اس کی خرید وفروخت صحیح ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3003   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4591  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
قَدبَلَّغتَ:
آپ کا کام پیغام پہنچانا اور اسلام کی دعوت دینا ہے،
وہ آپ نے دے دی ہے،
ماننا یا نہ ماننا ہمارا کام ہے۔
(2)
ذَالِكَ أُرِيدُ:
میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ تم اس کا اعتراف کر لو کہ تم تک پیغام پہنچ گیا ہے۔
فوائد ومسائل:
جنگ بنو قریظہ تک جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے اور مدینہ آنے سے پہلے کا واقعہ ہے،
تمام یہودی قبائل،
بنو قینقاع،
بنو نضیر اور بنو قریظہ کو ان کی عہد شکنی کی بنا پر مدینہ سے نکالا جا چکا تھا،
لیکن ان کے بعض چھوٹے خاندان پیچھے رہ گئے،
جو تعلیم و تعلم میں مشغول تھے،
اب آپﷺ نے ان کو بھی مدینہ سے نکالنا چاہا تو پہلے انہیں اسلام کی دعوت دی اور ان کے انکار پر کہا،
اب تمہارے یہاں سے نکالنے کا وقت آ گیا،
لہذا اپنا مال،
اسباب بیچ کر یہاں کی زمین خالی کر دو اور یہاں سے چلے جاؤ۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4591