صحيح مسلم
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
26. باب كِتَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى هِرَقْلَ يَدْعُوهُ إِلَى الإِسْلاَمِ:
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کا بیان جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام لانے کے لیے شام کے بادشاہ ہرقل کو لکھا تھا۔
حدیث نمبر: 4608
وحَدَّثَنَاه حَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ وَزَادَ فِي الْحَدِيثِ، وَكَانَ قَيْصَرُ لَمَّا كَشَفَ اللَّهُ عَنْهُ جُنُودَ فَارِسَ مَشَى مِنْ حِمْصَ إِلَى إِيلِيَاءَ شُكْرًا لِمَا أَبْلَاهُ اللَّهُ، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَقَالَ: إِثْمَ الْيَرِيسِيِّينَ، وَقَالَ: بِدَاعِيَةِ الْإِسْلَامِ.
صالح نے ابن شہاب سے اسی سند کے ساتھ روایت کی اور حدیث میں یہ اضافہ کیا: جب اللہ نے قیصر (کے سر پر سے) فارس کے لشکروں کو ہتا دیا تو وہ اس نعمت کا شکر ادا کرنے کے لیے، جو اللہ نے اس پر کی تھی، پیدل چل کر حمص سے ایلیاء گیا، اور انہوں نے حدیث میں (یوں) کہا: "اللہ کے بندے اور اس کے رسول محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف سے۔" اور انہوں نے (اریسین کے بجائے یاء کے ساتھ) یریسین اور "اسلام کی طرف بلانے والے کلمے کے ساتھ (دعوت دیتا ہوں) " کے الفاظ کہے
امام صاحب یہی حدیث اپنے دو اور اساتذہ کی سند سے ابن شہاب کے اس واسطہ سے بیان کرتے ہیں اور اس میں یہ اضافہ ہے کہ قیصر شاہ روم سے جب اللہ تعالیٰ نے ایرانی فوج کو شکست دلوا دی تو وہ اللہ کی اس نعمت و احسان کے شکرانہ کے طور پر حمص سے چل کر ایلیاء (بیت المقدس) آیا اور اس حدیث میں ہے، (محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول کی طرف سے) اور اس میں ہے، (الاريسين)
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4608  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
مَلِكُ بني الاصفر:
رومیوں کے جد امجد،
روم بن عیص نے،
ایک حبشی شہزادی سے شادی کر لی تھی،
جس کی وجہ سے اس کی اولاد گندمی رنگ کی تھی یا اس کی دادی حضرت سارۃ علیہا السلام نے اسے سونا پہنایا تھا،
اس لیے اس کی اولاد کو بنو الاصفر کا نام دیا گیا- (2)
اثم الير يسيين:
إريسيين اور يريسيين کا معنی ایک ہی ہے،
جس کا معنی کاشتکار،
کسان ہے،
جیسا کہ بعض روایات میں اكارين کا لفظ آیا ہے اور ایک مرسل روایت میں اثم الفلاحين آیا ہے،
بعض نے اس کا معنی خدم و حشم،
نوکر چاکر کیا ہے،
بعض کے بقول عبداللہ بن اریس کے پیروکار مراد ہیں اور بقول بعض،
رؤسا اور شہزادے ہیں،
جو لوگوں کو غلط راہوں پر چلاتے ہیں،
لیکن صحیح معنی پہلا ہی ہے۔
(3)
دعاية اور داعية:
دونوں کا معنی وحدت ہے یا داعية سے مراد كلمة داعية ہے،
یعنی کلمہ توحید۔
(4)
شكر ا لما ابلاه الله:
اللہ نے اس پر جو نعمت و احسان فرمایا،
اسے اپنے دشمن ایرانیوں پر غلبہ دیا،
جنہوں نے اس کی سلطنت کو تباہ و برباد کر ڈالا تھا اور اسے اپنے دار السلطنت قسطنطنیہ میں محصور کر ڈالا تھا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4608