صحيح مسلم
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
29. باب غَزْوَةِ الطَّائِفِ:
باب: طائف کی لڑائی کا بیان۔
حدیث نمبر: 4620
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ جَمِيعًا، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ الشَّاعِرِ الْأَعْمَى ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: " حَاصَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهْلَ الطَّائِفِ فَلَمْ يَنَلْ مِنْهُمْ شَيْئًا، فَقَالَ: إِنَّا قَافِلُونَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، قَالَ أَصْحَابُهُ: نَرْجِعُ وَلَمْ نَفْتَتِحْهُ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اغْدُوا عَلَى الْقِتَالِ، فَغَدَوْا عَلَيْهِ فَأَصَابَهُمْ جِرَاحٌ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّا قَافِلُونَ غَدًا، قَالَ: فَأَعْجَبَهُمْ ذَلِكَ فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل طائف کا محاصرہ کیا اور ان میں سے کسی کی جان نہ لے سکے تو آپ نےفرمایا: "ان شاءاللہ ہم کل لوٹ جائیں گے۔" آپ کے صحابہ نے کہا: ہم لوٹ جائیں جبکہ ہم نے اسے فتح نہیں کیا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "صبح جنگ کے لیے نکلو۔" وہ صبح نکلے تو انہیں زخم لگے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "ہم کل واپس لوٹ جائیں گے۔" کہا: تو انہیں یہ بات اچھی لگی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف والوں کا محاصرہ کر لیا اور ان کو کوئی نقصان نہ پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم ان شاءاللہ کل واپس لوٹ جائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے کہا، ہم اسے فتح کیے بغیر لوٹ جائیں گے! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کل جنگ کے لیے نکلو۔ وہ اس کے لیے نکلے اور انہیں زخم لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم کل واپس چلیں گے۔ تو اس پر وہ بہت خوش ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4620  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اہل طائف نے غزوہ حنین کے بعد بھاگ کر اپنے قلعہ میں پناہ لی،
لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین سے فارغ ہو کر اور جعرانہ میں مال غنیمت جمع فرما کر ماہ شوال 8ھ میں طائف کا رخ کیا اور وہ وہاں پہنچ کر قلعہ کا محاصرہ کیا،
ان لوگوں نے سال بھر کا سامان خوردونوش جمع کر لیا تھا اور مسلمانوں پر اس شدت سے تیر اندازی کی کہ معلوم ہوتا تھا ٹڈی دل چھایا ہوا ہے،
مسلمانوں نے اس قلعہ کو فتح کرنے کے لیے پہلی دفعہ منجنیق سے دبابہ کو استعمال کیا،
لیکن قلعہ قابو ہوتا نظر نہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپسی کا اعلان فرما دیا،
لیکن یہ اعلان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر گراں گزرا کہ طائف فتح کیے بغیر کیوں واپس ہوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اچھا تو کل لڑائی کے لیے نکلو،
دوسرے دن جب لڑائی کے لیے نکلے تو زخموں کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا تو اس کے بعد آپﷺ نے پھر فرمایا،
ہم ان شاءاللہ کل واپس ہوں گے،
اس پر لوگوں میں مسرت و شادمانی کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے بے چون و چرا رخت سفر باندھنا شروع کر دیا،
یہ کیفیت دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے کہ کل جو لوگ کوچ کے لیے تیار نہیں،
آج زخم کھا کر کس طرح جلدی واپسی کے لیے تیار ہو گئے ہیں،
تفصیل کے لیے الرحیق المختوم دیکھئے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4620