صحيح مسلم
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
34. باب صُلْحِ الْحُدَيْبِيَةِ فِي الْحُدَيْبِيَةِ:
باب: حدیبیہ میں جو صلح ہوئی اس کا بیان۔
حدیث نمبر: 4631
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، وَأَحْمَدُ بْنُ جَنَابٍ الْمِصِّيصِيُّ جَمِيعًا، عَنْ عِيسَى بْنِ يُونُسَ وَاللَّفْظُ لِإِسْحَاقَ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّاءُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ الْبَرَاءِ ، قَالَ: لَمَّا أُحْصِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الْبَيْتِ صَالَحَهُ أَهْلُ مَكَّةَ عَلَى أَنْ يَدْخُلَهَا، فَيُقِيمَ بِهَا ثَلَاثًا، وَلَا يَدْخُلَهَا إِلَّا بِجُلُبَّانِ السِّلَاحِ السَّيْفِ، وَقِرَابِهِ وَلَا يَخْرُجَ بِأَحَدٍ مَعَهُ مِنْ أَهْلِهَا، وَلَا يَمْنَعَ أَحَدًا يَمْكُثُ بِهَا مِمَّنْ كَانَ مَعَهُ، قَالَ لِعَلِيٍّ: اكْتُبْ الشَّرْطَ بَيْنَنَا بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ لَهُ الْمُشْرِكُونَ: لَوْ نَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ تَابَعْنَاكَ، وَلَكِنْ اكْتُبْ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، فَأَمَرَ عَلِيًّا أَنْ يَمْحَاهَا، فَقَالَ عَلِيٌّ: لَا وَاللَّهِ لَا أَمْحَاهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرِنِي مَكَانَهَا، فَأَرَاهُ مَكَانَهَا، فَمَحَاهَا، وَكَتَبَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ، فَأَقَامَ بِهَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَلَمَّا أَنْ كَانَ يَوْمُ الثَّالِثِ، قَالُوا لِعَلِيٍّ: هَذَا آخِرُ يَوْمٍ مِنْ شَرْطِ صَاحِبِكَ، فَأْمُرْهُ فَلْيَخْرُجْ فَأَخْبَرَهُ بِذَلِكَ، فَقَالَ: نَعَمْ فَخَرَجَ "، وقَالَ ابْنُ جَنَابٍ فِي رِوَايَتِهِ: مَكَانَ تَابَعْنَاكَ بَايَعْنَاكَ.
اسحاق بن ابراہیم حنظلی اور احمد بن جناب مصیصی دونوں نے عیسیٰ بن یونس سے۔۔ لفظ اسحاق کے ہیں۔۔ روایت کی، کہا: ہمیں عیسیٰ بن یونس نے خبر دی، ہمیں زکریا نے ابواسحاق سے حدیث بیان کی، انہوں نے براء رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت اللہ کے پاس روک لیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مکہ والوں نے اس بات پر صلح کی کہ (آئندہ سال) مکہ میں داخل ہوں اور تین دن تک اس میں رہیں اور ہتھیار رکھنے کے تھیلوں: تلوار اور اس کے نیام کے علاوہ (کوئی ہتھیار لے کر) اس شہر میں داخل نہ ہوں اور کسی مکہ والے کو اپنے ساتھ نہ لے جائیں اور ان کے ساتھ آنے والوں میں سے جو وہاں رہ جائے (مشرکوں کا ساتھ قبول کر لے) تو اس کو منع نہ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: "اس شرط کو ہمارے درمیان لکھو بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ ہے جس پر باہمی فیصلہ کیا اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے۔" مشرک بولے: اگر ہم یہ یقین جانتے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں تو آپ کی پیروی کرتے، بلکہ یوں لکھیے: "محمد بن عبداللہ نے۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا ان (الفاظ) کو مٹا دیں۔ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں (اپنے ہاتھ سے) نہ مٹاؤں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اچھا، مجھے اس (جملے) کی جگہ دکھاؤ۔" حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دکھا دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مٹا دیا اور ابن عبداللہ لکھ دیا (جب حسبِ معاہدہ اگلے سال آ کر عمرہ ادا فرمایا) تو تین روز ہی مکہ معظمہ میں رہے۔ جب تیسرا دن ہوا تو مشرکوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا: یہ تمہارے صاحب کی شرط کا آخری دن ہے، ان سے کہو: اب وہ چلے جائیں، انہوں نے آپ کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اچھا۔" اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (مکہ سے) نکل آئے۔ ابن جناب نے "ہم آپ کی پیروی کرتے" کے بجائے "ہم آپ کی بیعت کرتے۔" کہا
حضرت براء بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ سے روک دئیے گئے، اہل مکہ نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے اس شرط پر صلح کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں داخل ہو کر صرف تین دن ٹھہر سکیں گے اور آپ اس میں اسلحہ کو غلاف میں بند کر کے داخل ہوں گے، تلوار میان میں ہو گی اور اپنے ساتھ اس کے کسی باشندے کو لے نہیں جائیں گے اور اپنے ساتھیوں میں سے کسی ایسے فرد کو نہیں روکیں گے جو وہاں ٹھہرنا چاہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا: ہمارے درمیان شرطیں لکھو، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، یہ وہ شرطیں ہیں جن پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کا فیصلہ کیا ہے۔ تو آپ سے مشرکوں نے کہا، اگر ہم یقین کر لیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کر لیں، لیکن یہ لکھو، محمد بن عبداللہ، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو اس کے مٹانے کا حکم دیا تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، نہیں، اللہ کی قسم! میں اس کو نہیں مٹا سکتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اس لفظ کی جگہ دکھاؤ۔ تو انہوں نے اس کی جگہ دکھائی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مٹا دیا اور ابن عبداللہ لکھ دیا اور مکہ میں تین دن ٹھہرے، تو جب تیسرا دن آیا، مشرکوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا، یہ آپ کے ساتھی کی شرط کے مطابق آخری دن ہے، انہیں کہیے کہ وہ چلے جائیں، انہوں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے چل دئیے، ابن خباب کی روایت میں تابعناك کی جگہ بايعنك
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1832  
´محرم ہتھیار ساتھ رکھے اس کے حکم کا بیان۔`
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ والوں سے صلح کی تو آپ نے ان سے اس شرط پر مصالحت کی کہ مسلمان مکہ میں جلبان السلاح کے ساتھ ہی داخل ہوں گے ۱؎ تو میں نے ان سے پوچھا: «جلبان السلاح» کیا ہے؟ انہوں نے کہا: «جلبان السلاح» میان کا نام ہے اس چیز سمیت جو اس میں ہو۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1832]
1832. اردو حاشیہ: اللہ عزوجل محدثین کو کروٹ کروٹ اپنی رحمتوں سے نوازے کسی خوبصورت انداز میں ایک تاریخی واقعہ سے فقہی مسئلہ استنباط کیا ہے۔کہ محرم کے لئے جائز ہے کہ اپنے ہتھیار رکھے۔اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوگی ان کے فقیہ ہونے کی کتب ا حادیث کا تمام ذخیرہ اس طائفہ منصورہ کے فقیہ ہونے کی بین دلیل ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1832   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4631  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
کتب ابن عبداللہ سے بعض حضرات نے یہ استدلال کیا ہے کہ یہ لفظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے تحریر فرمایا،
لیکن جمہور کے نزدیک لکھنے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں،
جیسا کہ اگلی روایت میں آ رہا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے لکھا،
اس لیے آپﷺ کی طرف نسبت کی گئی ہے اور اگر آپ نے یہ لفظ معجزاتی طور پر خود بھی لکھ دیا ہو تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ نے لکھنا پڑھنا جان لیا تھا،
کیونکہ ایک لفظ لکھنے والے کو کاتب نہیں کہتے اور آپﷺ نے صلح کے معاہدہ کے مطابق اگلے سال 7ھ میں عمرہ کیا اور اس میں تین دن مکہ میں ٹھہرے اور یہ عمرہ صلح کے نتیجہ میں ہوا،
اس لیے اس کو عام المقاضاۃ،
عمرۃ القضیۃ اور عمرۃ القضاء کا نام دیا گیا،
یہ نہیں کہ آپﷺ نے رہ جانے والے عمرہ کی قضائی دی تھی،
اس لیے عمرۃ القضاء کہلایا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4631