صحيح مسلم
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
48. باب النِّسَاءُ الْغَازِيَاتُ يُرْضَخُ لَهُنَّ وَلاَ يُسْهَمُ وَالنَّهْيُ عَنْ قَتْلِ صِبْيَانِ أَهْلِ الْحَرْبِ:
باب: جو عورتیں جہاد میں شریک ہوں ان کو انعام ملے گا اور حصہ نہیں ملے گا اور بچوں کو قتل کرنا منع ہے۔
حدیث نمبر: 4688
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: سَمِعْتُ قَيْسًا يُحَدِّثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، حَدَّثَنِي قَيْسُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ ، قَالَ: كَتَبَ نَجْدَةُ بْنُ عَامِرٍ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: فَشَهِدْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ حِينَ قَرَأَ كِتَابَهُ وَحِينَ كَتَبَ جَوَابَهُ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : وَاللَّهِ لَوْلَا أَنْ أَرُدَّهُ عَنْ نَتْنٍ يَقَعُ فِيهِ مَا كَتَبْتُ إِلَيْهِ وَلَا نُعْمَةَ عَيْنٍ، قَالَ: " فَكَتَبَ إِلَيْهِ إِنَّكَ سَأَلْتَ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى الَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ مَنْ هُمْ؟، وَإِنَّا كُنَّا نَرَى أَنَّ قَرَابَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُمْ نَحْنُ، فَأَبَى ذَلِكَ عَلَيْنَا قَوْمُنَا، وَسَأَلْتَ عَنِ الْيَتِيمِ مَتَى يَنْقَضِي يُتْمُهُ؟، وَإِنَّهُ إِذَا بَلَغَ النِّكَاحَ، وَأُونِسَ مِنْهُ رُشْدٌ وَدُفِعَ إِلَيْهِ مَالُهُ فَقَدِ انْقَضَى يُتْمُهُ، وَسَأَلْتَ هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْتُلُ مِنْ صِبْيَانِ الْمُشْرِكِينَ أَحَدًا؟، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَقْتُلُ مِنْهُمْ أَحَدًا وَأَنْتَ فَلَا تَقْتُلْ مِنْهُمْ أَحَدًا، إِلَّا أَنْ تَكُونَ تَعْلَمُ مِنْهُمْ مَا عَلِمَ الْخَضِرُ مِنَ الْغُلَامِ حِينَ قَتَلَهُ، وَسَأَلْتَ عَنِ الْمَرْأَةِ وَالْعَبْدِ هَلْ كَانَ لَهُمَا سَهْمٌ مَعْلُومٌ إِذَا حَضَرُوا الْبَأْسَ؟، فَإِنَّهُمْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ سَهْمٌ مَعْلُومٌ، إِلَّا أَنْ يُحْذَيَا مِنْ غَنَائِمِ الْقَوْمِ "،
قیس بن سعد نے مجھے یزید بن ہرمز سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: نجدہ بن عامر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا تو میں اس وقت، جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کا خط پڑھا اور اس کا جواب لکھا، ان کے پاس حاضر تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! اگر یہ (خیال) نہ ہوتا کہ (غالبا) میں اسے کسی قبیح عمل میں پڑ جانے سے روک لوں گا تو اسے جواب نہ لکھتا، یہ اس کی آنکھوں کی خوشی کے لیے نہیں۔ کہا: تو انہوں نے اس کی طرف لکھا: تم نے ذوی القربیٰ کے حصے کے بارے میں پوچھا تھا، جس کا اللہ نے ذکر فرمایا ہے کہ وہ کون ہین؟ تو ہمارا خیال یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت دار ہمی لوگ ہیں (لیکن) ہماری قوم نے ہماری بات ماننے سے انکار کر دیا۔ اور تم نے یتیم کے بارے میں پوچھا تھا، اس کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے؟ تو جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائے، اس کے سمجھدار ہو جانے کا پتہ چلنے لگے اور اس کا مال اس کے حوالے کیا جا سکے تو اس سے یتیمی ختم ہو جائے گی۔ اور تم نے پوچھا تھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کے بچوں میں سے کسی کو قتل کرتے تھے؟ تو بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کسی ایک کو بھی قتل نہیں کرتے تھے اور تم بھی ان میں سے کسی کو قتل مت کرنا، الا یہ کہ ان کے بارے میں تم کو بھی اسی بات کا علم ہو جائے جس کا اس بچے کے بارے میں خضر علیہ السلام کو علم ہوا جب انہوں نے اسے قتل کیا تھا۔ اور تم نے عورت اور غلام کے بارے میں پوچھا کہ جب وہ جنگ میں شریک ہوں تو کیا ان کو بھی مقررہ حصہ ملے گا؟ واقعہ یہ ہے کہ ان کا کوئی مقررہ حصہ نہیں، ہاں یہ کہ لوگوں کی غنیمتوں میں سے انہیں کچھ عطیہ دے دیا جائے
یزید بن یرمز بیان کرتے ہیں، نجدہ بن عامر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کو خط لکھا، جب ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے اس کا خط پڑھا اور جب اس کا جواب لکھا، میں بھی موجود تھا، ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا: اللہ کی قسم! اگر مجھے یہ احساس نہ ہوتا کہ میں اس کو گندگی بدبو میں گرفتار ہونے سے باز رکھ سکوں گا، تو میں اسے جواب نہ لکھتا، اس کی آنکھوں کو آسودگی نصیب نہ ہو، اسے لکھ، تو نے ذوالقربیٰ کے حصہ کے بارے میں پوچھا ہے، جن کا اللہ نے ذکر کیا ہے، کہ وہ کون ہیں؟ اور ہم سمجھتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار، وہ ہم ہیں، لیکن ہماری قوم نے ہماری بات تسلیم نہیں کی اور تو نے یتیم کے بارے میں پوچھا ہے کہ اس کی یتیمی کب ختم ہو گی؟ اور واقعہ یہ ہے جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائے اور اس سے سوجھ بوجھ (عقل و شعور اور سلیقہ) معلوم ہو اور اس کا مال اسے دے دیا جائے گا، تو اس کی یتیمی ختم ہو جائے گی اور تو نے دریافت کیا ہے، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں کے بچوں میں سے کسی کو قتل کرتے تھے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کسی کو قتل نہیں کرتے تھے اور تو بھی ان میں سے کسی کو قتل نہ کر، الا یہ کہ تو ان میں وہ بات جان لے، جو خضر علیہ السلام نے اس بچے کے بارے میں جان لی تھی، جسے انہوں نے قتل کیا تھا اور تو نے عورت اور غلام کے بارے میں سوال کیا ہے، کیا ان کے لیے مقررہ حصہ تھا؟ جبکہ جنگ میں شریک ہوتے تھے؟ تو ان کے لیے متعین حصہ نہ تھا، الا یہ کہ مسلمانوں کی غنیمتوں سے ان کو کچھ عطیہ دے دیا جاتا۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4688  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
لَوْلَا أَنْ أَرُدَّهُ عَنْ نَتْنٍ يَقَعُ فِيهِ:
اگر میں یہ خیال نہ کرتا کہ میں اسے ناپسندیدہ امور اور کاموں سے باز رکھ سکوں گا (یعنی میرے جواب سے وہ حماقت میں مبتلا ہو کر ناپسندیدہ کاموں کا ارتکاب کرنے سے باز رہے گا)
تو میں اس کو جواب نہ لکھتا۔
(2)
لَا نُعْمَةَ عَيْنٍ:
اس کی آنکھوں کو مسرت حاصل نہ ہو،
یعنی میں نے اس کی آنکھوں کو مسرت بخشنے کے لیے جواب نہیں لکھوایا،
میرا مقصد صرف اس کو ناپسندیدہ کاموں سے روکنا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4688