صحيح مسلم
كِتَاب الْإِمَارَةِ -- امور حکومت کا بیان
1. باب النَّاسُ تَبَعٌ لِقُرَيْشٍ وَالْخِلاَفَةُ فِي قُرَيْشٍ:
باب: خلیفہ قریش میں سے ہونا چاہیئے۔
حدیث نمبر: 4701
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ يَعْنِيَانِ الْحِزَامِيَّ . ح وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ كِلَاهُمَا، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِي حَدِيثِ زُهَيْرٍ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وقَالَ عَمْرٌو: رِوَايَةً " النَّاسُ تَبَعٌ لِقُرَيْشٍ فِي هَذَا الشَّأْنِ مُسْلِمُهُمْ لِمُسْلِمِهِمْ وَكَافِرُهُمْ لِكَافِرِهِمْ ".
عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب اور قتیبہ بن سعید نے مغیرہ حزامی سے اور زہیر بن حرب اور عمرو ناقد نے سفیان بن عیینہ سے (مغیرہ اور سفیان) دونوں نے ابوزناد سے انہوں نے اعرج سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور زہیر کی حدیث میں ہے، انہوں (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ) نے حدیث کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائی (آپ سے بیان کی) اور عمرو نے کہا: (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی: "لوگ اس اہم معاملے (حکومت) میں قریش کے تابع ہیں، مسلمان، قریشی مسلمانوں کے پیچھے چلنے والے ہیں اور کافر، قریشی کافروں کے پیچھے چلنے والے ہیں
حضرت ابوہریرہ ‬ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حکومت اور اقتدار کا معاملہ میں لوگ قریش کے تابع ہیں، مسلمان لوگ، مسلمان قریشیوں اور کافر لوگ کافر قریشیوں کے۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4701  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث اور اس باب کی دوسری حدیث سے یہ بات باکل واضح طور پر ثابت ہوتی ہے،
کہ خلافت قریش کے ساتھ مختص ہے،
قریش جاہلیت اور کفر کے دور میں بھی لوگوں کے سردار تھے،
حتیٰ کہ اسلام لانے میں بھی لوگ ان کے منتظر تھے،
جب مکہ فتح ہوگیا اور قریش مسلمان ہوگئے،
تو لوگ جوق درجوق اسلام میں داخل ہوگئے اور مسلمانوں میں حقیقی خلافت،
جس میں اسلام کو غلبہ تھا اور مسلمانوں کو عزت واحترام حاصل تھا اور تمام مسلمان ایک خلیفہ کی رعایا تھے،
اس وقت تک قائم رہی جب تک خلیفہ قریشی تھا اور جب قریش کے پاس حقیقی خلافت نہ رہی،
محض نام کی خلافت رہی یا ان سے خلافت نکل گئی،
تو حقیقی خلافت والی برکات و خیرات بھی ختم ہوگئیں اور مسلمانوں کی بے شمار کمزور حکومتیں قائم ہوگئیں اور ان کی عزت و وقار ملیامٹ ہوگیا،
جس کا آج ہم کھلی آنکھوں مشاہدہ کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کے متحد ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی اور اسلام کے نام سے غیر اسلامی امور رواج پذیر ہیں اور ہر جگہ اقتدار کے سلسلہ میں رسہ کشی ہے،
اگر دینی تقاضا پر عمل پیرا ہوتے مسلمان قریشی کو حقیقی خلیفہ بناتے تو مسلمان اس حالت زار میں گرفتار نہ ہوتے،
اس لیے امام نوی،
قاضی عیاض وغیر ھمانے خلیفہ کے قریشی ہونے پر اجماع نقل کیا ہے اور اگر آج اس بات کو نظر انداز کیا گیا ہے،
تو یہ اس طرح جس طرح دوسری دینی باتوں کو نظر انداز کر دیا ہے،
حتیٰ کہ نماز جیسی بنیادی عبادت جس پر کفر اور اسلام کامدار ہے،
اس کی بھی اہمیت نہیں رہی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4701