صحيح مسلم
كِتَاب الْإِمَارَةِ -- امور حکومت کا بیان
6. باب غِلَظِ تَحْرِيمِ الْغُلُولِ:
باب: غنیمت میں چوری کرنا کیسا گناہ ہے۔
حدیث نمبر: 4734
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، فَذَكَرَ الْغُلُولَ فَعَظَّمَهُ وَعَظَّمَ أَمْرَهُ، ثُمَّ قَالَ: لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ بَعِيرٌ لَهُ رُغَاءٌ، يَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا، قَدْ أَبْلَغْتُكَ لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ فَرَسٌ لَهُ حَمْحَمَةٌ، فَيَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا، قَدْ أَبْلَغْتُكَ لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ شَاةٌ لَهَا ثُغَاءٌ، يَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا، قَدْ أَبْلَغْتُكَ لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ نَفْسٌ لَهَا صِيَاحٌ، فَيَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا، قَدْ أَبْلَغْتُكَ لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ رِقَاعٌ تَخْفِقُ، فَيَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا، قَدْ أَبْلَغْتُكَ لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ صَامِتٌ، فَيَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا، قَدْ أَبْلَغْتُكَ ".
اسماعیل بن ابراہیم نے ابوحیان سے، انہوں نے ابو زرعہ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں (خطبہ دینے کے لیے) کھڑے ہوئے۔ اور آپ نے مال غنیمت میں خیانت کا ذکر فرمایا: آپ نے ایسی خیانت اور اس کے معاملے کو انتہائی سنگین قرار دیا، پھر فرمایا: "میں تم میں سے کسی کو قیامت کے دن اس طرح آتا ہوا نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر اونٹ سوار ہو کر بلبلا رہا ہو اور وہ کہے: اللہ کے رسول! میری مدد فرمائیے، اور میں جواب میں کہوں: میں تمہارے لئے کچھ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا، میں نے تمہیں (دنیا ہی میں) حق پہنچا دیا تھا۔ میں تم میں سے کسی شخص کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن آئے اور اس کی گردن پر گھوڑا سوار ہو کر ہنہنا رہا ہو، وہ کہے: اللہ کے رسول! میری مدد کیجئے، اور میں کہوں کہ میں تمہارے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتا، میں نے تمہیں حق پہنچا دیا تھا۔ میں تم میں سے کسی شخص کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن آئے اور اس کی گردن پر بکری سوار ہو کر ممیا رہی ہو، وہ کہے: اللہ کے رسول! میری مدد کیجئے، اور میں کہوں: میں تمہارے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا، میں نے تمہیں حق سے آگاہ کر دیا تھا، میں تم میں سے کسی شخص کو روزِ قیامت اس حالت میں نہ دیکھوں کہ اس کی گردن پر کسی شخص کی جان سوار ہو اور وہ (ظلم کی دہائی دیتے ہوئے) چیخیں مار رہی ہو، اور وہ شخص کہے: اللہ کے رسول! میری مدد کیجئے، اور میں کہوں: میں تمہارے لیے کچھ نہیں کر سکتا، میں نے تمہیں سب کچھ بتا دیا تھا۔ میں تم میں سے کسی شخص کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن آئے اور اس کی گردن پر کپڑا لدا ہوا پھڑپھڑا رہا ہو، اور وہ کہے: اللہ کے رسول! میری مدد کیجئے، میں کہوں: تمہارے لیے میرے بس میں کچھ نہیں، میں نے تم کو سب کچھ سے آگاہ کر دیا تھا۔ میں تم میں سے کسی شخص کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن آئے اور اس کی گرن پر نہ بولنے والا مال (سونا چاندی) لدا ہوا ہو، وہ کہے: اللہ کے رسول! میری مدد کیجئے، میں کہوں: تمہارے لیے میرے پاس کسی چیز کا اختیار نہیں، میں نے تم کو (انجام) کی خبر پہنچا دی تھی
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان خطاب کے لیے کھڑے ہوئے، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے غنیمت میں خیانت کی سنگینی کا ذکر کیا اور اس معاملہ کو انتہائی سنگین قرار دیا، پھر فرمایا: میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن آئے اور اس کی گردن پر اونٹ سوار ہو، جو بلبلا رہا ہو، وہ کہے، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! میری فریاد رسی کیجئے، تو میں جواب دوں گا، میرے اختیار میں تیرے لیے کچھ نہیں، میں تمہیں پیغام پہنچا چکا ہوں، میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں، وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے کہ اس کی گردن پر گھوڑا سوار ہو جو ہنہنا رہا ہو اور وہ کہے گا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! میری مدد فرمائیے، تو میں کہوں گا، میرے بس میں تیرے لیے کچھ نہیں ہے، میں تمہیں پیغام پہنچا چکا ہوں، میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں، وہ قیامت کے دن آئے اور اس کی گردن پر کوئی انسان ہو، وہ چلا رہا ہو، وہ کہے گا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری مدد فرمائیے، میں کہوں گا، میں تیرے لیے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں، میں تمہیں مسئلہ بتا چکا ہوں۔ میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں، وہ قیامت کے دن آئے، اس کی گردن پر کپڑے لدے ہوں اور وہ بھی حرکت کر رہے ہوں، وہ کہے گا، یا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم! میری مدد کیجئے، میں کہوں گا، میں تمہارے لیے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں، میں تمہیں پیغام دے چکا ہوں، میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں، کہ اس کی گردن پر سونا چاندی لدا ہو، وہ کہے گا، یا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم! میری مدد فرمائیں، میں کہوں گا، میں تمہیں آگاہ کر چکا ہوں۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4734  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
لَا أُلْفِيَنَّ:
میں کسی کوہرگزنہ پاؤں۔
یا لَا أُلْقِيَنَّ میری ہرگز ملاقات نہ ہو۔
(2)
رُغَاءٌ:
اونٹ کی آواز،
جس کو بلبلانا کہتے ہیں۔
(3)
حَمْحَمَةٌ:
چارہ دیکھ کر گھوڑے کی آواز،
جس کو ہنہنانے سے تعبیر کرتے ہیں۔
(4)
ثُغَاءٌ:
بکری کی آواز،
جسےمنمنانے یا ممیانے کا نام دیا جاتا ہے۔
(5)
رِقَاعٌ:
رقعة کی جمع ہے،
کپڑے کے ٹکڑے،
یہاں مراد کپڑے ہیں،
جو تخفق ہل رہےہوں گے۔
(6)
صَامِتٌ:
سونا چاندی،
ناطق حیوانات کےمقابلہ میں آتا ہے۔
(7)
صِيَاحٌ:
چیخنا،
چلانا۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام امور کی نشان دہی فرما دی ہے،
جس کی انسان نے پابندی کرنی ہے،
اس لیے اگر وہ کسی شرعی حکم کی مخالفت کرے گا،
تو اسے اس کی سزا ملے گی،
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آغاز میں ایسے کسی انسان کی سفارش نہیں فرمائیں گے،
جس نے مالی خیانت کی ہو گی یا کسی کا ناجائز خون بہایا ہو گا اور مال غنیمت میں کسی قسم کی خیانت انتہائی سنگین ہے اور اس کے گناہ کبیرہ ہونے پر ائمہ کا اتفاق ہے،
حتیٰ کہ بعض ائمہ کے نزدیک اس کا تمام مال جلا دیا جائے گا،
لیکن جمہور ائمہ،
امام مالک،
امام شافعی اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس کا مال جلایا نہیں جائے گا،
امام اپنی صوابدید کے مطابق اس کو سزا دے گا،
اس لیے اگر کسی نے کسی کا مال کسی ناجائز طریقہ سے لیا ہے،
تو اسے توبہ کرکے پشیمانی اور ندامت کا اظہار کرتے ہوئے،
اس کے مالک یا اس کے ورثاء کو واپس کردینا چاہیے،
یہ ممکن نہ ہو،
تو اس کی طرف سے صدقہ کر دینا چاہیے،
اگر حکومت کا مال کھایا ہے،
تو کسی قومی فنڈ میں سے جمع کرا دے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4734