صحيح مسلم
كِتَاب الْإِمَارَةِ -- امور حکومت کا بیان
7. باب تَحْرِيمِ هَدَايَا الْعُمَّالِ:
باب: جو شخص سرکاری کام پر مقرر ہو تحفہ نہ لے۔
حدیث نمبر: 4738
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَكْرٍ، قَالُوا، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ ، قَالَ: " اسْتَعْمَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنَ الْأَسْدِ، يُقَالُ لَهُ ابْنُ اللُّتْبِيَّةِ، قَالَ عَمْرٌو، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ: عَلَى الصَّدَقَةِ، فَلَمَّا قَدِمَ، قَالَ: هَذَا لَكُمْ وَهَذَا لِي أُهْدِيَ لِي، قَالَ: فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَقَالَ: مَا بَالُ عَامِلٍ أَبْعَثُهُ، فَيَقُولُ هَذَا لَكُمْ وَهَذَا أُهْدِيَ لِي، أَفَلَا قَعَدَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ أَوْ فِي بَيْتِ أُمِّهِ حَتَّى يَنْظُرَ أَيُهْدَى إِلَيْهِ أَمْ لَا، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَا يَنَالُ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنْهَا شَيْئًا، إِلَّا جَاءَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَحْمِلُهُ عَلَى عُنُقِهِ بَعِيرٌ لَهُ رُغَاءٌ أَوْ بَقَرَةٌ لَهَا خُوَارٌ أَوْ شَاةٌ تَيْعِرُ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى رَأَيْنَا عُفْرَتَيْ إِبْطَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ؟ مَرَّتَيْنِ "،
ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد اور ابن ابی عمر نے حدیث بیان کی،۔۔ الفاظ ابوبکر بن ابی شیبہ کے ہیں۔۔ کہا: ہمیں سفیان بن عیینہ نے زہری سے حدیث بیان کی، انہوں نے عروہ سے، انہوں نے ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو اسد کے ایک شخص کو جسے ابن لُتبیہ کہا جاتا تھا، عامل مقرر کیا۔۔ عمرو اور ابن ابی عمر نے کہا: زکاۃ کی وصولی پر (مقرر کیا)۔۔ جب وہ (زکاۃ وصول کر کے) آیا تو اس نے کہا: یہ آپ لوگوں کے لیے ہے اور یہ مجھے ہدیہ کیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: "ایک عامل کا حال کیا ہوتا ہے کہ میں اس کو (زکاۃ وصول کرنے) بھیجتا ہوں اور وہ آ کر کہتا ہے: یہ آپ لوگوں کے لیے ہے اور یہ مجھے ہدیہ کیا گیا ہے، ایسا کیوں نہ ہوا کہ یہ اپنے باپ یا اپنی ماں کےگھر میں بیٹھتا، پھر نظر آتا کہ اسے ہدیہ دیا جاتا ہے یا نہیں؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! تم میں سے کوئی بھی شخص ایسا نہیں کہ وہ اس (مال) میں سے (اپنے لیے) کچھ لے، مگر وہ قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس نے اسے اپنی گردن پر اٹھا رکھا ہو گا، قیامت کے دن اونٹ ہو گا، بلبلا رہا ہو گا، گائے ہو گی، ڈکرا رہی ہو گی، بکری ہو گئی، ممیا رہی ہو گی۔" پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اس قدر بلند کیے کہ ہمیں آپ کی دونوں بغلوں کے سفید حصے نظر آئے، پھر آپ نے دو مرتبہ فرمایا: "اے اللہ! کیا میں نے (حق) پہنچا دیا؟" (4739) معمر نے زہری سے، انہوں نے عروہ سے، انہوں نے ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ اَزد کے ابن لتبیہ نامی ایک شخص کو زکاۃ (کی وصولی) پر عامل بنایا، وہ کچھ مال لے کر آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا اور کہا: یہ آپ لوگوں کا مال ہے اور یہ ہدیہ ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "تم اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر میں کیوں نہیں بیٹھے، پھر دیکھتے کہ تمہیں ہدیہ دیا جاتا ہے یا نہیں؟" پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، پھر سفیان (بن عیینہ) کی حدیث کی طرح بیان کیا
حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسد قبیلہ کے ایک ابن لتبیہ نامی انسان کو صدقہ کی وصولی کے لیے عامل مقرر فرمایا، تو جب وہ (صدقہ وصول کر کے) واپس آیا، کہنے لگا، یہ آپ کا مال ہے اور یہ میرا مال ہے جو مجھے تحفہ ملا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان فرمائی اور فرمایا: جس کارندے کو میں بھیجتا ہوں، اس کو کیا ہوا ہے کہ وہ کہتا ہے یہ تمہارا حصہ ہے اور یہ مجھے تحفہ میں دیا گیا ہے وہ اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر میں کیوں بیٹھا نہیں رہا، تاکہ دیکھتا کیا اسے تحفہ بھیجا جاتا ہے یا نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے، تم میں سے کوئی صدقہ کے مال سے کچھ نہیں لے گا، مگر قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اسے اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے ہو گا، اگر اونٹ ہے تو وہ بلبلا رہا ہو گا اور اگر گائے ہے تو وہ ڈکار رہی ہو گی، بکری ہوئی تو ممیا رہی ہو گی۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے، حتیٰ کہ ہم نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کا مٹیالہ رنگ دیکھا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! کیا میں نے پہنچا دیا۔ دو دفعہ فرمایا۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2946  
´ملازمین کو ہدیہ لینا کیسا ہے؟`
ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ ازد کے ایک شخص کو جسے ابن لتبیہ کہا جاتا تھا زکاۃ کی وصولی کے لیے عامل مقرر کیا (ابن سرح کی روایت میں ابن اتبیہ ہے) جب وہ (وصول کر کے) آیا تو کہنے لگا: یہ مال تو تمہارے لیے ہے (یعنی مسلمانوں کا) اور یہ مجھے ہدیہ میں ملا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: عامل کا کیا معاملہ ہے؟ کہ ہم اسے (وصولی کے لیے) بھیجیں اور وہ (زکاۃ کا مال لے کر) آئے اور پھر یہ کہے: یہ مال تمہارے لیے ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے، کیوں نہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2946]
فوائد ومسائل:
حکومت کا منصب دار ہوتے ہوئے متعینہ حق سے زیادہ لینا خواہ لوگ اپنی مرضی سے کیوں نہ دیں۔
اور اسے ہدیہ بتایئں تو وہ بیت المال کا حق ہے۔
اور قومی امانت ہے۔
اسے اپنے ذاتی تصرف میں لانا جائز ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2946   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4738  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازد قبیلہ جسے بنو اسد کہتے ہیں،
کے ایک فرد کو یمن،
بنو سلیم کے صدقات کی وصولی کے لیے بھیجا،
تو اس نے واپس آ کر کچھ مال کے بارے میں ہدیہ ہونے کا دعویٰ کیا،
تو آپ نے تمام کارندوں کو تنبیہ کرنے کے لیے بڑے کرنے کے لیے بڑے غصے سے منبر پر چڑھ کر فرمایا ہدیہ اور تحفہ وہ ہے،
جو حکومتی عہدہ اور منصب حاصل ہونے سے پہلے گھر بیٹھے بٹھائے ملے،
لیکن جو ہدیہ یا تحفہ عہدہ اور منصب کے حصول کے بعد ملتا ہے،
وہ تحفہ اور عطیہ نہیں ہے،
وہ تو صرف اس کے عہدہ اور منصب سے فائدہ اٹھانے کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے اور اس کے دل میں اپنے لیے نرم گوشہ پیدا کرنے کے لیے بطور رشوت دیا گیا ہے،
کہ بوقت ضرورت کام آئے یا وہ ان سے آسانی اور سہولت سے پیش آئے،
اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے عاملوں کو وقتا فوقتا محاسبہ فرماتے رہتے اور جس کے بارے میں یہ محسوس فرماتے،
اس نے اپنے عہدہ اور منصب سے فائدہ اٹھایا ہے،
اور اپنے مشاہرہ کے مقابلہ میں زیادہ مال جمع کر لیا ہے،
تو وہ اس سے زائد مال وصول کر لیتے،
بعض دفعہ اس کا سارا یا آدھا مال لے لیتے،
لیکن آج کل،
حکومت کے تمام لوگ مال بنانے میں مشغول ہیں،
تو ایسی حکومت ملازموں کا محاسبہ کیسے کرے،
اس لیے رشوت کا بازار بھی گرم ہے اور اس کے سوا مال ہڑپ کرنے کے اور بھی ذرائع نکال لیے گئے ہیں،
جس کی بنیاد پر تمام رعایا مال بنانے کے چکر میں مشغول ہے اور اس کے لیے انتہائی گھناؤنے ذرائع اختیار کیے جا رہے ہیں،
سود،
رشوت،
ملاوٹ،
ڈاکہ،
اغواء،
کمیشن،
قبضہ سب اس کے شاخسانے ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4738