صحيح مسلم
كِتَاب الْإِمَارَةِ -- امور حکومت کا بیان
7. باب تَحْرِيمِ هَدَايَا الْعُمَّالِ:
باب: جو شخص سرکاری کام پر مقرر ہو تحفہ نہ لے۔
حدیث نمبر: 4740
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ ، قَالَ: " اسْتَعْمَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنَ الْأَزْدِ عَلَى صَدَقَاتِ بَنِي سُلَيْمٍ يُدْعَى ابْنَ الْأُتْبِيَّةِ، فَلَمَّا جَاءَ حَاسَبَهُ، قَالَ: هَذَا مَالُكُمْ وَهَذَا هَدِيَّةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَهَلَّا جَلَسْتَ فِي بَيْتِ أَبِيكَ وَأُمِّكَ حَتَّى تَأْتِيَكَ هَدِيَّتُكَ إِنْ كُنْتَ صَادِقًا، ثُمَّ خَطَبَنَا فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَسْتَعْمِلُ الرَّجُلَ مِنْكُمْ عَلَى الْعَمَلِ مِمَّا وَلَّانِي اللَّهُ، فَيَأْتِي، فَيَقُولُ: هَذَا مَالُكُمْ وَهَذَا هَدِيَّةٌ أُهْدِيَتْ لِي، أَفَلَا جَلَسَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ وَأُمِّهِ حَتَّى تَأْتِيَهُ هَدِيَّتُهُ إِنْ كَانَ صَادِقًا، وَاللَّهِ لَا يَأْخُذُ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنْهَا شَيْئًا بِغَيْرِ حَقِّهِ إِلَّا لَقِيَ اللَّهَ تَعَالَى يَحْمِلُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَلَأَعْرِفَنَّ أَحَدًا مِنْكُمْ لَقِيَ اللَّهَ يَحْمِلُ بَعِيرًا لَهُ رُغَاءٌ أَوْ بَقَرَةً لَهَا خُوَارٌ أَوْ شَاةً تَيْعَرُ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى رُئِيَ بَيَاضُ إِبْطَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ بَصُرَ عَيْنِي وَسَمِعَ أُذُنِي "،
ہشام نے اپنے والد سے، انہوں نے ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو اسد کے ایک شخص کو بنو سلیم کے صدقات وصول کرنے کے لیے عامل بنایا، اسے ابن اُتبیہ کہا جاتا تھا۔ جب وہ مال وصول کر کے آیا تو (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) اس کے ساتھ حساب کیا۔ وہ کہنے لگا: یہ آپ لوگوں کا مال ہے اور یہ ہدیہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر تم سچے ہو تو اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر میں جا کر کیوں نہ بیٹھ گئے تاکہ تمہارا ہدیہ تمہارے پاس آ جاتا۔" پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی، پھر فرمایا: "اما بعد! میں تم میں سے کسی شخص کو کسی ایسے کام پر عامل بناتا ہوں جس کی تولیت (انتظام) اللہ تعالیٰ نے میرے سپرد کی ہے اور وہ شخص آتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ تم لوگوں کا مال ہے اور یہ ہدیہ ہے جو مجھے ملا ہے۔ وہ شخص اگر سچا ہے تو اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر میں کیوں نہ بیٹھ گیا تاکہ اس کا ہدیہ اس کے پاس آتا، اللہ کی قسم! تم میں سے جو شخص بھی اس مال میں سے کوئی چیز اپنے حق کے بغیر لے گا، وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے اس حال میں پیش ہو گا کہ وہ چیز اس نے اپنی گردن پر اٹھا رکھی ہو گی، میں تم میں سے کسی بھی شخص کو ضرور پہچان لوں گا جو اللہ تعالیٰ کے سامنے اس حال میں پیش ہو گا کہ اس نے اونٹ اٹھایا ہو گا جو بلبلا رہا ہو گا، یا گائے اٹھا رکھی ہو گی جو ڈکرا رہی ہو گی، یا بکری اٹھائی ہو گی جو ممیا رہی ہو گی، " پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اتنا اوپر اٹھایا کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی، (اس وقت) آپ فرما رہے تھے: "اے اللہ! کیا میں نے (تیرا پیگام) پہنچا دیا؟" (ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ سب) میری آنکھوں نے دیکھا اور میرے کانوں نے سنا
حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ابن اتبیہ نامی ازدی آدمی کو بنو سلیم کے صدقات کی وصولی کے لیے مقرر فرمایا، جب وہ واپس آیا، تو آپ نے اس سے حساب مانگا، اس نے کہا، یہ آپ کا مال ہے اور یہ تحفہ ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اپنے باپ اور اپنی ماں کے گھر کیوں بیٹھا نہیں رہا، تاکہ تیرا ہدیہ تجھے پہنچتا، اگر تو اس معاملہ میں سچا ہے؟ پھر آپ نے ہمیں خطاب فرمایا، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی، پھر فرمایا: اما بعد، میں تم ہی سے کسی کو اس کام کے لیے عامل بناتا ہوں، جو اللہ تعالیٰ نے میرے سپرد کیا ہے تو وہ آ کر کہتا ہے، یہ تمہارا مال ہے اور یہ تحفہ ہے، جو مجھے دیا گیا ہے، تو وہ اپنے باپ اور ماں کے گھر کیوں نہیں بیٹھا رہا، تاکہ اس کا تحفہ اس کو ملتا، اگر وہ سچا ہے، اللہ کی قسم! تم میں سے کوئی مال سے ناجائز طریقہ سے کچھ نہیں لے گا، مگر وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کو اسے اٹھائے ہوئے ملے گا، میں تم سے اس کو ضرور پہچان لوں گا، کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملے گا کہ اس کی گردن پر اونٹ سوار ہو گا جو بلبلا رہا ہو گا یا وہ گائے اٹھائے ہوئے ہو گا جو ڈکار رہی ہو گی یا بکری ہو گی جو ممیا رہی ہو گی۔ پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اس قدر بلند کیے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی گئی، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! کیا میں نے پہنچا دیا؟ حضرت ابو حمید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میری آنکھوں نے (آپ کو) دیکھا اور میرے کانوں نے (آپ کی) بات سنی۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2946  
´ملازمین کو ہدیہ لینا کیسا ہے؟`
ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ ازد کے ایک شخص کو جسے ابن لتبیہ کہا جاتا تھا زکاۃ کی وصولی کے لیے عامل مقرر کیا (ابن سرح کی روایت میں ابن اتبیہ ہے) جب وہ (وصول کر کے) آیا تو کہنے لگا: یہ مال تو تمہارے لیے ہے (یعنی مسلمانوں کا) اور یہ مجھے ہدیہ میں ملا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: عامل کا کیا معاملہ ہے؟ کہ ہم اسے (وصولی کے لیے) بھیجیں اور وہ (زکاۃ کا مال لے کر) آئے اور پھر یہ کہے: یہ مال تمہارے لیے ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے، کیوں نہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2946]
فوائد ومسائل:
حکومت کا منصب دار ہوتے ہوئے متعینہ حق سے زیادہ لینا خواہ لوگ اپنی مرضی سے کیوں نہ دیں۔
اور اسے ہدیہ بتایئں تو وہ بیت المال کا حق ہے۔
اور قومی امانت ہے۔
اسے اپنے ذاتی تصرف میں لانا جائز ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2946