صحيح مسلم
كِتَاب الْإِمَارَةِ -- امور حکومت کا بیان
7. باب تَحْرِيمِ هَدَايَا الْعُمَّالِ:
باب: جو شخص سرکاری کام پر مقرر ہو تحفہ نہ لے۔
حدیث نمبر: 4743
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ عَمِيرَةَ الْكِنْدِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنِ اسْتَعْمَلْنَاهُ مِنْكُمْ عَلَى عَمَلٍ فَكَتَمَنَا مِخْيَطًا فَمَا فَوْقَهُ كَانَ غُلُولًا يَأْتِي بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، قَالَ: فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ أَسْوَدُ مِنْ الْأَنْصَارِ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اقْبَلْ عَنِّي عَمَلَكَ، قَالَ: وَمَا لَكَ، قَالَ: سَمِعْتُكَ تَقُولُ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: وَأَنَا أَقُولُهُ الْآنَ مَنِ اسْتَعْمَلْنَاهُ مِنْكُمْ عَلَى عَمَلٍ فَلْيَجِئْ بِقَلِيلِهِ وَكَثِيرِهِ، فَمَا أُوتِيَ مِنْهُ أَخَذَ وَمَا نُهِيَ عَنْهُ انْتَهَى "،
وکیع بن جراح نے کہا: ہمیں اسماعیل بن ابی خالد نے قیس بن ابی حازم سے حدیث سنائی، انہوں نے حضرت عدی بن عمیرہ کندی رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "ہم تم میں سے جس شخص کو کسی کام پر عامل مقرر کریں اور وہ ایک سوئی یا اس سے بڑی کوئی چیز ہم سے چھپا لے تو یہ خیانت ہو گی، وہ شخص قیامت کے دن اسے ساتھ لے کر آئے گا۔" (حضرت عدی رضی اللہ عنہ نے) کہا: میں دیکھ رہا تھا، (یہ بات سن کر) انصار میں سے کالے رنگ کا ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! آپ مجھ سے اپنا کام واپس لے لیجئے! آپ نے فرمایا: "تمہیں کیا ہوا؟" اس نے کہا: میں نے آپ کو اس اس طرح فرماتے ہوئے سنا ہے (میں اس وعید سے ڈرتا ہوں۔) آپ نے فرمایا: میں اب بھی یہی کہتا ہوں کہ ہم تم میں سے جس شخص کو کسی کام کا عامل بنائیں وہ ہر چھوٹی اور بڑی چیز کو لے کر آئے، اس کے بعد اس میں سےجو چیز اس کو دی جائے وہ لے لے اور جو چیز اس سے روک لی جائے اس سے دور رہے
حضرت عدی بن عمیرہ کندی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، ہم نے تم سے جس شخص کو کسی عمل کا عامل مقرر کیا اور اس نے ہم سے ایک سوئی یا اس سے بڑی چھوٹی چیز چھپائی، وہ خیانت ہو گی، وہ اسے قیامت کے دن لے کر حاضر ہو گا۔ تو ایک سیاہ انصاری آدمی آپ کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا، گویا کہ میں اسے دیکھ رہا ہوں، اس نے کہا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! آپ مجھ سے اپنا عمل واپس لے لیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمہیں کیا ہوا؟ اس نے عرض کیا، میں نے آپ کو اس طرح فرماتے سنا ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اب بھی یہی کہتا ہوں ہم نے تم میں جس کو بھی کسی عمل کا ذمہ دار بنایا ہے وہ اس کا کم یا زیادہ سب کچھ لائے، پھر اسے جو دیا جائے وہ لے لے اور جس سے اسے روک دیا جائے، اس سے رک جائے۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3581  
´عمال کو ملنے والے تحفوں اور ہدیوں کا بیان۔`
عدی بن عمیرہ کندی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! تم میں سے جو شخص کسی کام پر ہمارا عامل مقرر کیا گیا، پھر اس نے ہم سے ان (محاصل) میں سے ایک سوئی یا اس سے زیادہ کوئی چیز چھپائی تو وہ چوری ہے، اور وہ قیامت کے دن اس چرائی ہوئی چیز کے ساتھ آئے گا اتنے میں انصار کا ایک کالے رنگ کا آدمی کھڑا ہوا، گویا کہ میں اس کی طرف دیکھ رہا ہوں، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھ سے اپنا کام واپس لے لیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا بات ہے؟ اس شخص نے عرض کیا: آپ کو میں نے ایسے ایسے فرماتے سنا ہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3581]
فوائد ومسائل:
فائدہ: تمام ملی اور اجتماعی امور کی ذمہ اری انتہائی اہم ہے۔
اس میں محاصل کی ذمہ داری بھی شامل ہے۔
اس میں ذرا سی بھی غفلت اور کوتاہی انسان کے لئے آخرت کا وبال ہے۔
ایسی زمہ داریاں ادا کرنے والے کو اگر کہیں سے ہدایا۔
تحائف یا دیگر منافع حاصل ہو۔
تو وہ اس کے لئے حلال نہیں۔
ایسی تمام اشیاء اسے خزانے میں جمع کرانی ہوں گی۔
نیز حاکم اعلیٰ پر بھی لازم ہے کہ اپنے بندوں کو ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرتا رہے۔
اور آخرت میں اللہ کے ہاں جواب دہی کی یاد دلاتا ہے۔
اور خود بھی متنبہ اور محتاط رہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3581   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4743  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،
حکومت کا ملازم یا کارندہ صرف وہی مشاہرہ یا مراعات لے سکتا ہے،
جو حکومت نے خود دے دی ہیں،
اس سے زائد اگر وہ لیتا ہے،
تو اس کا محاسبہ ہو گا حتیٰ کہ مِخيط،
سوئی یا اس سے کم و بیش ناجائز فائدہ اٹھانا بھی خیانت ہے،
جس کے بارے میں قیامت کے دن جواب دینا ہو گا،
لیکن آج مسلمان حکمرانوں اور ان کے کارندوں یا ملازموں کو اس کی پرواہ نہیں ہے کہ وہ اپنے عہدہ سے کس قدر ناجائز مفادات اٹھا رہے ہیں اور انہیں ایک دن دربار الٰہی میں پیش ہو کر اس کا حساب و کتاب دینا ہو گا،
یہی حال ان لوگوں کا ہے،
جو قومی اور اجتماعی کاموں کے نام پر مال و دولت اکٹھی کرتے ہیں،
پھر اس کو شیر مادر سمجھ کر بغیر ڈکار لیے ہضم کر رہے ہیں،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو احساس مسئولیت سے نوازے اور ان حرکات سے بچنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4743