صحيح مسلم
كِتَاب الْإِمَارَةِ -- امور حکومت کا بیان
8. باب وُجُوبِ طَاعَةِ الأُمَرَاءِ فِي غَيْرِ مَعْصِيَةٍ وَتَحْرِيمِهَا فِي الْمَعْصِيَةِ:
باب: بادشاہ یا حاکم یا امام کی اطاعت واجب ہے اس کام میں جو گناہ نہ ہو اور گناہ میں اطاعت کرنا حرام ہے۔
حدیث نمبر: 4746
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: : " نَزَلَ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأَمْرِ مِنْكُمْ سورة النساء آية 59 فِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُذَافَةَ بْنِ قَيْسِ بْنِ عَدِيٍّ السَّهْمِيِّ، بَعَثَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ "، أَخْبَرَنِيهِ يَعْلَى بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ .
ابن جریج نے بیان کیا کہ قرآن مجید کی آیت: "اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے اختیار والے ہیں" حضرت عبداللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی سہمی رضی اللہ عنہ کے متعلق نازل ہوئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک لشکر میں (امیر بنا کر) روانہ کیا تھا (ابن جریج نے کہا) مجھے یعلیٰ بن مسلم نے سعید بن جبیر سے خبر دی، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی
ابن جریج حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ قرآن مجید کی یہ آیت اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور اپنے حکمرانوں کی
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4746  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دستہ کا امیر بنا کر روانہ فرمایا تھا،
وہ کسی بات پر ان سے ناراض ہو گئے،
پھر ان کو لکڑیاں اکٹھی کر کے آگ لگانے کا حکم دیا،
پھر جب آگ روشن ہو گئی،
تو انہیں کہنے لگے،
اس میں کود جاؤ،
وہ اس سلسلہ میں پس و پیش کرنے لگے،
اتنے میں آگ ٹھنڈی ہو گئی اور اس کا غصہ بھی ٹھنڈا ہو گیا،
واقعہ کی تفصیل آخر میں آ رہی ہے آپﷺ نے فرمایا،
اگر یہ لوگ داخل ہو جاتے،
تو قیامت تک اس آگ کے عذاب میں مبتلا رہتے،
اس لیے اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ امراء اور حکمرانوں کی اطاعت صرف جائز کاموں میں لازم ہے،
اگر وہ غلط یا ناجائز کام کا حکم دیں،
تو ان کی بات نہیں مانی جائے گی،
اگر کوئی ان کی غلط بات مانے گا،
تو اسے اس کا خمیازہ بھگتنا ہو گا،
آج اگر حکومت کے ملازمین اس حقیقت کو سامنے رکھیں اور حکمرانوں اور ان کے منظور نظر لوگوں کے ناجائز کام کرنے سے انکار کر دیں،
تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں،
چونکہ ہم نے دین اور اس کی ہدایات و تعلیمات کو نظر انداز کیا ہوا ہے،
اس لیے کسی ملازم کو اس کا احساس نہیں کہ ایک دن اس غلط کام کرنے کا خمیازہ مجھے ہی بھگتنا ہو گا اور ان حکمرانوں سے کوئی میرے کام نہیں آ سکے گا،
اس لیے حکمرانوں کو غلط احکام دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی،
وہ ہر قسم کے غلط کام حکومتی ملازموں سے کرواتے ہیں اور وہ اپنے مفادات کی خاطر یہ کام بخوشی کرتے ہیں،
الا ماشاء اللہ۔
اور اس واقعہ میں اصل مطلوب آیت کا آخری ٹکڑا ہے کہ اگر کسی مسئلہ میں تمہارے درمیان جھگڑا پیدا ہو جائے،
تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹاؤ،
یعنی کسی چیز کے جواز اور عدم جواز میں حرف آخر کتاب و سنت کی تعلیم و ہدایت ہے،
اس کی پابندی حکومت اور اس کے ملازمین دونوں کے لیے لازمی اور قطعی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4746