صحيح مسلم
كِتَاب الْإِمَارَةِ -- امور حکومت کا بیان
8. باب وُجُوبِ طَاعَةِ الأُمَرَاءِ فِي غَيْرِ مَعْصِيَةٍ وَتَحْرِيمِهَا فِي الْمَعْصِيَةِ:
باب: بادشاہ یا حاکم یا امام کی اطاعت واجب ہے اس کام میں جو گناہ نہ ہو اور گناہ میں اطاعت کرنا حرام ہے۔
حدیث نمبر: 4758
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ يَحْيَي بْنِ حُصَيْنٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ جَدَّتِي تُحَدِّثُ: أَنَّهَا سَمِعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَهُوَ، يَقُولُ: " وَلَوِ اسْتُعْمِلَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ يَقُودُكُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ، فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا "،
محمد بن مثنیٰ نے کہا: محمد بن جعفر نے ہمیں شعبہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے یحییٰ بن حصین سے، انہوں نے کہا: میں نے اپنی دادی سے سنا، وہ بیان کرتی تھیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے دوران میں خطبہ دے رہے تھے اور آپ فرما رہے تھے: "اگر تم پر ایک غلام کو حاکم بنایا جائے اور وہ کتاب اللہ کے مطابق تمہاری راہنمائی کرے تو اس کی بات سنو اور اطاعت کرو
یحییٰ بن حصین بیان کرتے ہیں، میں نے اپنی دادی (ام الحصین) سے سنا، اس نے کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع میں یہ فرماتے سنا: اور اگر تم پر ایسا غلام مقرر کر دیا جائے جو تمہیں اللہ کے قانون کے مطابق چلائے تو اس کی بات سنو اور اطاعت کرو۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1706  
´امام کی اطاعت کرنے کا بیان۔`
ام حصین احمسیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع میں خطبہ دیتے ہوئے سنا، آپ کے جسم پر ایک چادر تھی جسے اپنی بغل کے نیچے سے لپیٹے ہوئے تھے، (گویا میں) آپ کے بازو کا پھڑکتا ہوا گوشت دیکھ رہی ہوں، میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا: لوگو! اللہ سے ڈرو، اور اگر کان کٹا ہوا حبشی غلام بھی تمہارا حاکم بنا دیا جائے تو اس کی بات مانو اور اس کی اطاعت کرو، جب تک وہ تمہارے لیے کتاب اللہ کو قائم کرے (یعنی کتاب اللہ کے موافق حکم دے) ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1706]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث میں امیر کی اطاعت اور اس کی ماتحتی میں رہنے کی ترغیب دی جارہی ہے،
اور ہرایسے عمل سے دوررہنے کاحکم دیا جا رہا ہے جس سے فتنہ کے سر اٹھانے اور مسلمانوں کی اجتماعیت میں انتشار پید ہونے کا اندیشہ ہو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1706