صحيح البخاري
كِتَاب التَّهَجُّد -- کتاب: تہجد کا بیان
21. بَابُ فَضْلِ مَنْ تَعَارَّ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّى:
باب: جس شخص کی رات کو آنکھ کھلے پھر وہ نماز پڑھے اس کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 1158
وَكَانُوا لَا يَزَالُونَ يَقُصُّونَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرُّؤْيَا، أَنَّهَا فِي اللَّيْلَةِ السَّابِعَةِ مِنَ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَى رُؤْيَاكُمْ قَدْ تَوَاطَأَتْ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، فَمَنْ كَانَ مُتَحَرِّيهَا فَلْيَتَحَرَّهَا مِنَ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ".
‏‏‏‏ بہت سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے خواب بیان کئے کہ شب قدر (رمضان کی) ستائیسویں رات ہے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم سب کے خواب رمضان کے آخری عشرے میں (شب قدر کے ہونے پر) متفق ہو گئے ہیں۔ اس لیے جسے شب قدر کی تلاش ہو وہ رمضان کے آخری عشرے میں ڈھونڈے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 271  
´لیلتہ لقدر کا بیان`
«. . . 210- وبه: أن رجالا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أروا ليلة القدر فى المنام فى السبع الأواخر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إني أرى رؤياكم قد تواطأت فى السبع الأواخر، فمن كان متحريها فليتحرها فى السبع الأواخر . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے بعض لوگوں نے خواب میں دیکھا کہ لیلتہ القدر (رمضان کے) آخری سات دنوں میں ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے خواب لگاتار ایک دوسرے کے موافق ہیں کہ آخری سات دنوں میں لیلتہ القدر ہے، پس جو شخص اسے تلاش کرنا چاہے تو آخری سات دنوں میں تلاش کرے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 271]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2015، ومسلم 1165، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہوتی ہے۔
➋ مختلف افراد کا ایک جیسے لگاتار خواب دیکھنا آسمانی اشارے یا بشارت میں سے ہے بشرطیکہ یہ کسی نص صریح کے خلاف نہ ہوں۔
➌ مومن کا خواب نبوت کے چالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔
➍ خوابوں کے لئے دیکھئے: [ح121، 127، 375]
➎ لیلۃ القدر کے لئے دیکھئے: [ح148، 283]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 210   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 575  
´اعتکاف اور قیام رمضان کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کچھ مردوں کو آخری ہفتہ میں شب قدر دکھائی گئی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہاری خواب کو دیکھتا ہوں جو آخری ہفتہ میں موافق آیا ہے۔ اگر کوئی اس کو تلاش کرنے والا ہو تو وہ آخری ہفتہ میں اسے تلاش کرے۔ (بخاری ومسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 575]
575 لغوی تشریح:
«اُرُوا» «اِراءَةٌ» سے ماخوذ صیغہ مجمہول ہے۔
«فِي السَّبَع الَّاوَاخِرِ» اس سے آخری سات دن مراد ہیں جن کی ابتدا تئیس کی رات سے ہوتی ہے۔
«اُرَي» یہ صیغہ مجہول جو «اَظُنُّ» کے معنی میں ہے اور «اَظُنُّ» صیغہ معلوم ہے۔ اس کے معنی ظن و گمان کے ہیں کہ میں گمان کرتا ہوں۔
«تَوَاطَاَتْ» کے معنی موافقت کے ہیں۔
«مُتَحرَّبَهَا» جو اس کا طالب ہو۔ یہ «اَلتَّحَرَي» سے ماخوذ ہے جس کے معنی مطلوب کو حاصل کرنے میں کوشش اور جستجو کرنا ہیں۔ ٭
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 575   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1385  
´شب قدر کا رمضان کی آخری سات راتوں میں ہونے کی روایت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شب قدر کو اخیر کی سات راتوں میں تلاش کرو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب شهر رمضان /حدیث: 1385]
1385. اردو حاشیہ: ا س میں بھی اجمال ہے۔ آخری سات راتوں میں طاق اورجفت دونوں ہی شامل ہیں۔ اگرصرف طاق راتیں مراد لی جایئں۔ تو سترہویں رات سے شمار کرنا ہوگا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1385   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1158  
1158. اس کے بعد حضرت عبداللہ بن عمر ؓ رات کو نمازِ تہجد پڑھنے کا اہتمام کرتے تھے۔ نبی ﷺ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اپنے خواب بیان کیا کرتے تھے، انہوں نے بیان کیا کہ آخری عشرے کی ساتویں رات لیلۃ القدر ہے۔ نبی ﷺ نے اس کے متعلق فرمایا: تمہارے خواب لیلۃ القدر کے متعلق اس پر متفق ہیں کہ وہ رمضان کے آخری عشرے میں ہے، لہذا اگر کوئی شب قدر کو تلاش کرنا چاہے تو وہ رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1158]
حدیث حاشیہ:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کتاب الصیام میں باب تحری لیلۃ القدر کے تحت میں فرماتے ہیں:
في ھذہ الترجمة إشارة إلی رجحان کون لیلة القدر منحصرة في رمضان ثم في العشر الأخیر منه ثم في أوتارہ لا في لیلة منھا بعینھا وھذا ھو الذي یدل علیه مجموع الأخبار الواردة فیھا۔
(فتح)
یعنی لیلۃ القدر رمضان میں منحصر ہے اور وہ آخری عشرہ کی کسی ایک طاق رات میں ہوتی ہے جملہ احادیث جو اس باب میں وارد ہوئی ہیں ان سب سے یہی ثابت ہوتا ہے۔
باقی تفصیل کتاب الصیام میں آئےگی۔
طاق راتوں سے 21, 23, 25, 27, 29 کی راتیں مراد ہیں۔
ان میں سے وہ کسی رات کے ساتھ خاص نہیں ہے۔
احادیث سے یہی ثابت ہوا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1158   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1158  
1158. اس کے بعد حضرت عبداللہ بن عمر ؓ رات کو نمازِ تہجد پڑھنے کا اہتمام کرتے تھے۔ نبی ﷺ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اپنے خواب بیان کیا کرتے تھے، انہوں نے بیان کیا کہ آخری عشرے کی ساتویں رات لیلۃ القدر ہے۔ نبی ﷺ نے اس کے متعلق فرمایا: تمہارے خواب لیلۃ القدر کے متعلق اس پر متفق ہیں کہ وہ رمضان کے آخری عشرے میں ہے، لہذا اگر کوئی شب قدر کو تلاش کرنا چاہے تو وہ رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1158]
حدیث حاشیہ:
(1)
دراصل ایک ہی حدیث کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔
مقصود صرف عبداللہ بن عمر ؓ کے متعلق نماز تہجد کے التزام کو بیان کرنا ہے۔
(2)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے متعلق تہجد پڑھنے کا ذکر آپ کے شاگرد حضرت نافع نے کیا ہے جبکہ اس سے قبل آپ کے بیٹے حضرت سالم نے بھی اس قسم کا ذکر کیا تھا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1158