صحيح مسلم
كِتَاب الْإِمَارَةِ -- امور حکومت کا بیان
16. باب وُجُوبِ الإِنْكَارِ عَلَى الأُمَرَاءِ فِيمَا يُخَالِفُ الشَّرْعَ وَتَرْكِ قِتَالِهِمْ مَا صَلَّوْا وَنَحْوِ ذَلِكَ:
باب: اگر امیر شرع کے خلاف کوئی کام کرے تو اس کو برا جاننا چاہیئے۔
حدیث نمبر: 4800
حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ الْأَزْدِيُّ ، حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَي ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ الْحَسَنِ ، عَنْ ضَبَّةَ بْنِ مِحْصَنٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " سَتَكُونُ أُمَرَاءُ فَتَعْرِفُونَ وَتُنْكِرُونَ، فَمَنْ عَرَفَ بَرِئَ وَمَنْ أَنْكَرَ سَلِمَ وَلَكِنْ مَنْ رَضِيَ "، وَتَابَعَ، قَالُوا: أَفَلَا نُقَاتِلُهُمْ، قَالَ: لَا مَا صَلَّوْا ".
ہمام بن یحییٰ نے کہا: ہمیں قتادہ نے حسن سے حدیث بیان کی، انہوں نے ضبہ بن محصن سے، انہوں نے ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جلد ہی ایسے حکمران ہوں گے کہ تم انہیں (کچھ کاموں میں) صحیح اور (کچھ میں) غلط پاؤ گے۔ جس نے (ان کی رہنمائی میں) نیک کام کیے وہ بَری ٹھہرا اور جس نے (ان کے غلط کاموں سے) انکار کر دیا وہ بچ گیا لیکن جو ہر کام پر راضی ہوا اور (ان کی) پیروی کی (وہ بَری ہوا نہ بچ سکا۔) " صحابہ نے عرض کی: کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں؟ آپ نے فرمایا: "نہیں، جب تک کہ وہ نماز پڑھتے رہیں (جنگ نہ کرو
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقینا ایسے حکمران ہوں گے، وہ معروف اور منکر، اچھے برے دونوں قسم کے کام کریں گے، جس نے (اچھے برے کی) شناخت کر لی، وہ بری ہو گیا اور جس نے منکر کا انکار کیا، وہ (گناہ سے) سلامت رہا، لیکن جس نے برے کاموں پر رضا مندی کا اظہار کیا اور ان کی پیروی کی (وہ سلامت نہ رہا) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا، کیا ہم ان سے جنگ نہ لڑیں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2265  
´حکمراں جب تک نماز کی پابندی کرے اس کی اطاعت کا بیان۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب تمہارے اوپر ایسے حکمراں ہوں گے جن کے بعض کاموں کو تم اچھا جانو گے اور بعض کاموں کو برا جانو گے، پس جو شخص ان کے برے اعمال پر نکیر کرے وہ مداہنت اور نفاق سے بری رہا اور جس نے دل سے برا جانا تو وہ محفوظ رہا، لیکن جو ان سے راضی ہو اور ان کی اتباع کرے (وہ ہلاک ہو گیا)، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا ہم ان سے لڑائی نہ کریں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2265]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
منکر کا انکار اگر زبان سے ہے تو ایسا شخص نفاق سے بری ہے،
اور دل سے ناپسند کرنے والا اس منکر کے شر اور وبال سے محفوظ رہے گا،
لیکن جو پسند کرے اور اس سے راضی ہو تو وہ منکر کرنے والوں کے ساتھ ہے،
یعنی جس سزاکے وہ مستحق ہوں گے اس سزا کا یہ بھی مستحق ہوگا،
منکر انجام دینے والے بادشاہوں سے اگر وہ نماز کے پابند ہوں،
قتال کرنے سے اس لیے منع کیاگیا تاکہ فتنہ سے محفوظ رہ سکیں،
اور امت اختلاف و انتشار کا شکار نہ ہو،
جب کہ نماز کی پابندی نہ کرنے والا تو کافر ہے،
اس لیے اس سے قتال جائز ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2265   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4760  
´خوارج سے قتال کا بیان۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب تم پر ایسے حاکم ہوں گے جن سے تم معروف (نیک اعمال) ہوتے بھی دیکھو گے اور منکر (خلاف شرع امور) بھی دیکھو گے، تو جس نے منکر کا انکار کیا، (ابوداؤد کہتے ہیں: ہشام کی روایت میں «بلسانہ» کا لفظ بھی ہے (جس نے منکر کا) اپنی زبان سے انکار کیا) تو وہ بری ہو گیا اور جس نے دل سے برا جانا وہ بھی بچ گیا، البتہ جس نے اس کام کو پسند کیا اور اس کی پیروی کی تو وہ بچ نہ سکے گا عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا ہم انہیں قتل نہ کر دیں؟ (سلیمان ابن داود طیالسی) کی روایت میں ہے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4760]
فوائد ومسائل:
1: نماز ایک ایسا عمل ہے، اس کی پابندی انسان کے لئے بڑے سے بڑے گناہ سے بھی قتل وقتال سےرکاوٹ بن جاتی ہے، سوائے اس کہ معروف حدود کا ارتکاب کرے۔

2: اور ایسے امراء جو نماز پڑھتے ہوں ان کے خلاف خروج (بغاوت) جائز نہیں۔
نماز ترک کر دیں تو مسئلہ اختلافی ہے۔

3: شرعی منکرات اور رعیت پرظلم کو آدمی قوت سے بدلنے پر قادر نہ ہو تو زبان سے یا کم از کم دل سے ان کو برا کہنا اور جاننا فرض ہے ورنہ ایمان نہیں۔

4: ظالموں کے ظلم پر راضی رہنا اور ان کا معاون بننا دنیا اور آخرت کی ہلاکت کا باعث ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4760