صحيح البخاري
كِتَاب التَّهَجُّد -- کتاب: تہجد کا بیان
24. بَابُ مَنْ تَحَدَّثَ بَعْدَ الرَّكْعَتَيْنِ وَلَمْ يَضْطَجِعْ:
باب: فجر کی سنتیں پڑھ کر باتیں کرنا اور نہ لیٹنا۔
حدیث نمبر: 1161
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , قَالَ: حَدَّثَنِي سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا صَلَّى سُنَّةَ الْفَجْرِ فَإِنْ كُنْتُ مُسْتَيْقِظَةً حَدَّثَنِي، وَإِلَّا اضْطَجَعَ حَتَّى يُؤْذَنَ بِالصَّلَاةِ".
ہم سے بشر بن حکم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے سالم ابوالنضر نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی سنتیں پڑھ چکتے تو اگر میں جاگتی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے باتیں کرتے ورنہ لیٹ جاتے جب تک نماز کی اذان ہوتی۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 947  
´فجر کی دونوں رکعتیں ہلکی پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فجر کی سنتیں پڑھتے دیکھتی، آپ انہیں اتنی ہلکی پڑھتے کہ میں (اپنے جی میں) کہتی تھی: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں سورۃ فاتحہ پڑھی ہے (یا نہیں)۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 947]
947 ۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ مبالغہ ہے جس سے مقصود تخفیف ہے، نہ کہ انہیں شک تھا۔ خصوصاً رات کی نماز (تہجد) کے مقابلے میں تو یہ بہت ہی خفیف معلوم ہوتی ہوں گی، چنانچہ اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ فجر کی دو سنتیں ہلکی پڑھنا مستحب ہے۔
➋ مذکورہ قرأت سورۂ فاتحہ کے علاوہ ہے۔ یہ نہیں کہ صرف یہ آیات یا یہ سورتیں ہی پڑھتے تھے۔ سورۂ فاتحہ کے بارے میں تو آپ کا صریح فرمان ہے کہ جو فاتحہ نہ پڑھے، اس کی نماز نہیں ہوتی۔ [صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 756، و صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 874]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 947   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1198  
´وتر کے بعد اور فجر کی دو رکعت سنت کے بعد لیٹنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی دو رکعت سنت پڑھ لیتے تو دائیں کروٹ لیٹ جاتے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1198]
اردو حاشہ:
فائده:
فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنا سنت ہے۔
لیکن نبی اکرمﷺ سے بعض اوقات نہ لیٹنا بھی ثابت ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی سے مروی ہے۔
انھوں نے فرمایا نبی اکرمﷺ جب فجر کی سنتیں پڑھ لیتے تو اگر میں جاگ رہی ہوتی تو آپ مجھ سے بات چیت كرتے ورنہ لیٹ جائے حتیٰ کہ آپ کو نماز (کی اقامت ہوجانے)
کی اطلاع دی جاتی۔ (صحیح البخاري، التهجد، باب من تحدث بعدالرکعتین ولم یضطع، حدیث: 1161)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1198   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 287  
´نفل نماز کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر سے پہلے دو رکعت ہلکی پڑھتے تھے۔ میں خیال کرتی کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف «‏‏‏‏ام الكتاب» ‏‏‏‏ (سورۃ الفاتحہ) ہی پڑھی۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 287»
تخریج:
«أخرجه البخاري، التهجد، باب ما يقرأ في ركعتي الفجر، حديث:1171، ومسلم، صلاة المسافرين، باب استحباب ركعتي سنة الفجر، حديث:724.»
تشریح:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صبح کی دو سنتیں مختصر اور ہلکی پڑھتے تھے۔
امام شافعی اور جمہور علماء رحمہما اللہ نے اسی بنا پر کہا ہے کہ ان دو رکعتوں میں مختصر قیام افضل ہے جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ان میں بھی لمبا قیام افضل قرار دیتے ہیں۔
لیکن یہ صحیح نہیں۔
ان کے دونوں شاگرد امام ابویوسف اور امام محمد رحمہما اللہ نے بھی ان کی مخالفت کی ہے۔
سورۂ فاتحہ کے علاوہ آپ چھوٹی سورتیں پڑھتے تھے جیسا کہ آئندہ حدیث میں ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 287   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1262  
´فجر کی سنت کے بعد لیٹنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب آخری رات میں اپنی نماز پوری کر چکتے تو اگر میں جاگ رہی ہوتی تو آپ مجھ سے گفتگو کرتے اور اگر سو رہی ہوتی تو مجھے جگا دیتے، اور دو رکعتیں پڑھتے پھر لیٹ جاتے، یہاں تک کہ آپ کے پاس مؤذن آتا اور آپ کو نماز فجر کی خبر دیتا تو آپ دو ہلکی سی رکعتیں پڑھتے، پھر نماز کے لیے نکل جاتے۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1262]
1262۔ اردو حاشیہ:
➊ اس حدیث میں وتروں کے بعد گفتگو کرنے اور دو رکعتیں پڑھ کر لیٹ جانے کا ذکر ہے۔ جس سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ فجر کی دو سنتوں کے بعد لیٹنا سنت نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو یوں ہی استرحت کے لیے لیٹ جاتے تھے، کبھی نماز تہجد کے بعد (جیسا کہ اس حدیث میں ہے) اور کبھی فجر کی سنتوں کے بعد۔ لیکن یہ استدلال اس لیے صحیح نہیں کہ اس حدیث میں گفتگو کرنے اور وتروں کے بعد لیٹنے والی بات محفوظ نہیں ہے یعنی ایک راوی کو وہم ہوا ہے، جب کہ دوسرے تمام راویوں نے لیٹنے کا ذکر سنتوں کے بعد ہی کیا ہے۔ اس لیے فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنے کو غیر مستحب قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ ملاحظہ ہو: [فتح الباري، باب من تحدث بعد الركعتين ولم يضطجع: 3/56]
علاوہ ازیں شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی فجر کی سنتوں سے پہلے لیٹنے اور گفتگو کرنے کو شاذ قرار دیا ہے۔ [ضعيف ابوداؤد]
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وتروں کے بعد دو رکعتیں نفل پڑھنا بھی جائز ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ تم وتر کو اپنی رات کی آخری نماز بناؤ۔ تو یہ حکم وجوب کے طور پر نہیں، استحباب کے طور پر ہے۔ [مرعاة المفاتيح]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1262   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1161  
1161. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب نماز فجر کی سنتیں پڑھ لیتے اگر میں بیدار ہوتی تو میرے ساتھ گفتگو فرماتے، بصورت دیگر آپ لیٹ جاتے حتی کہ نماز فجر کے لیے اقامت کہی جاتی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1161]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ اگر لیٹنے کا موقع نہ ملے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
مگر اس لیٹنے کو برا جاننا فعل رسول کی تنقیص کرناہے
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1161   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1161  
1161. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب نماز فجر کی سنتیں پڑھ لیتے اگر میں بیدار ہوتی تو میرے ساتھ گفتگو فرماتے، بصورت دیگر آپ لیٹ جاتے حتی کہ نماز فجر کے لیے اقامت کہی جاتی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1161]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نماز فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنا ضروری نہیں، سنتوں اور فرضوں کے درمیان گفتگو سے بھی فصل کیا جا سکتا ہے۔
امام شافعی ؒ نے اس موقف کو اختیار کیا ہے کہ سنتوں کے بعد لیٹنے کا مقصد صرف فرض اور سنت میں فصل کرنا ہے، وہ لیٹنے کے علاوہ کسی چیز سے بھی ہو سکتا ہے، لیکن امام نووی ؒ نے حدیث ابو ہریرہ کے پیش نظر اسے سنت قرار دیا ہے کیونکہ راوئ حدیث حضرت ابو ہریرہ ؓ نے سنتوں کی ادائیگی کے بعد مسجد کی طرف چل کر آنے کو کافی نہیں سمجھا جیسا کہ مروان نے کہا تھا بلکہ لیٹنے کی تلقین کی ہے۔
(سنن أبي داود، التطوع، حدیث: 1281) (2)
بعض حضرات کا خیال ہے کہ اگر گھر میں سنت پڑھی جائیں تو لیٹنا چاہیے، مسجد میں لیٹنا درست نہیں۔
حضرت ابن عمر ؓ مسجد میں لیٹنے والے کو کنکریاں مارتے تھے۔
(مصنف ابن أبي شیبة)
امام بخاری ؒ کے عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اگر سنت سے فراغت کے بعد لیٹتے تو گفتگو نہ فرماتے اور اگر گفتگو کرتے تو لیٹتے نہیں تھے اور امام ابن خزیمہ ؒ نے بھی اپنی صحیح میں اسی قسم کا عنوان قائم کیا ہے، لیکن امام احمد ؒ نے ایک حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز تہجد پڑھتے، فراغت کے بعد لیٹ جاتے، اگر میں بیدار ہوتی تو میرے ساتھ گفتگو فرماتے اور اگر میں نیند میں ہوتی تو آپ بھی سو جاتے حتی کہ آپ کے پاس صبح کی نماز کے لیے مؤذن آتا۔
(مسند أحمد: 35/6)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ لیٹنے کے دوران میں گفتگو کرتے تھے۔
بہرحال صبح کی دو سنت پڑھنے کے بعد لیٹنا مشروع ہے، اسے خلاف سنت قرار دینا درست نہیں۔
(فتح الباري: 58/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1161