صحيح مسلم
كِتَاب الْإِمَارَةِ -- امور حکومت کا بیان
28. باب فَضْلِ الْجِهَادِ وَالْخُرُوجِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ:
باب: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔
حدیث نمبر: 4859
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عُمَارَةَ وَهُوَ ابْنُ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَضَمَّنَ اللَّهُ لِمَنْ خَرَجَ فِي سَبِيلِهِ، لَا يُخْرِجُهُ إِلَّا جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَإِيمَانًا بِي وَتَصْدِيقًا بِرُسُلِي، فَهُوَ عَلَيَّ ضَامِنٌ أَنْ أُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ أَوْ أَرْجِعَهُ إِلَى مَسْكَنِهِ الَّذِي خَرَجَ مِنْهُ نَائِلًا، مَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِيمَةٍ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ مَا مِنْ كَلْمٍ يُكْلَمُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلَّا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَهَيْئَتِهِ، حِينَ كُلِمَ لَوْنُهُ لَوْنُ دَمٍ وَرِيحُهُ مِسْكٌ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْلَا أَنْ يَشُقَّ عَلَى الْمُسْلِمِينَ مَا قَعَدْتُ خِلَافَ سَرِيَّةٍ تَغْزُو فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَبَدًا، وَلَكِنْ لَا أَجِدُ سَعَةً، فَأَحْمِلَهُمْ وَلَا يَجِدُونَ سَعَةً، وَيَشُقُّ عَلَيْهِمْ أَنْ يَتَخَلَّفُوا عَنِّي، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي أَغْزُو فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَأُقْتَلُ ثُمَّ أَغْزُو، فَأُقْتَلُ ثُمَّ أَغْزُو فَأُقْتَلُ ".
جریر نے عمارہ بن قعقاع سے، انہوں نے ابوزرعہ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے خود (ایسے شخص کی) ضمانت دی ہے کہ جو شخص اس کے راستے میں نکلا، میرے راستے میں جہاد، میرے ساتھ ایمان اور میرے رسولوں کی تصدیق کے سوا اور کسی چیز نے اسے گھر سے نہیں نکالا، اس کی مجھ پر ضمانت ہے کہ میں اسے جنت میں داخل کروں گا، یا پھر اسے اس کی اسی قیام گاہ میں واپس لے آؤں گا جس سے وہ (میری خاطر) نکلا تھا، جو اجر اور غنیمت اس نے حاصل کی وہ بھی اسے حاصل ہو گی۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! جو زخم بھی اللہ کی راہ میں لگایا جاتا ہے (تو زخم کھانے والا) قیامت کے دن اسی حالت میں آئے گا جس حالت میں اس کو زخم لگا تھا، اس (زخم) کا رنگ خون کا ہو گا اور خوشبو کستوری کی، اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! اگر مسلمانوں پر دشوار نہ ہوتا تو میں اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کسی بھی لشکر سے مختلف رویہ اپناتے ہوئے (گھر میں) نہ بیٹھتا، لیکن میرے پاس اتنی وسعت نہیں ہوتی کہ میں سب مسلمانوں کو سواریاں مہیا کر سکوں اور نہ ہی ان (سب) کے پاس اتنی وسعت ہوتی ہے اور یہ بات ان کو بہت شاق گزرتی ہے کہ وہ مجھ سے پیچھے رہ جائیں۔ اس ذات کی قسم کس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! مجھے یہ پسند ہے کہ میں اللہ کی راہ میں جہاد کروں اور قتل کر دیا جاؤں، پھر جہاد کروں، پھر قتل کر دیا جاؤں اور پھر جہاد کروں، پھر قتل کر دیا جاؤں۔"
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں نکلنے والے کو ضمانت دی، جبکہ صرف اللہ کے راستہ میں جہاد کے لیے نکلتا ہے، اس پر یقین رکھتے ہوئے اور اس کے رسولوں کی تصدیق کرتے ہوئے، وہ میری ضمانت میں ہے کہ میں اس کو جنت میں داخل کروں گا، یا اپنے جس گھر میں نکلا، اس میں اجر یا غنیمت کے ساتھ واپس لاؤں گا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، جو زخم بھی اللہ کی راہ میں لگے گا، قیامت کے دن وہ زخم اس حالت میں آئے گا، جس میں وہ لگتے وقت تھا، اس کا رنگ خون والا رنگ ہو گا اور مہک کستوری کی طرح ہو گی، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے، اگر مجھے اندیشہ نہ ہوتا کہ مسلمانوں کے لیے دشواری ہو گی، تو میں کسی دستہ سے کبھی پیچھے نہ بیٹھتا، جب وہ اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلتا، لیکن میرے پاس اتنی گنجائش نہیں کہ میں ان سب کو سواری مہیا کر سکوں اور ان کے پاس اپنے طور پر سواری حاصل کرنے کی مقدرت نہیں اور مجھ سے پیچھے رہنا ان کے لیے دشواری کا باعث ہے، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے، میں چاہتا ہوں، میں اللہ کی راہ میں جنگ لڑتے شہید ہو جاؤں (پھر زندگی ملے) پھر غزوہ میں حصہ لیتے شہید ہو جاؤں (پھر زندگی ملے) پھر جہاد کروں اور شہید ہو جاؤں۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 553  
´مجاہد کی فضیلت`
«. . . 346- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: تكفل الله لمن جاهد فى سبيله، لا يخرجه من بيته إلا الجهاد فى سبيله وتصديق كلمته، بأن يدخله الجنة أو يرده إلى مسكنه الذى خرج منه مع ما نال من أجر أو غنيمة. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ کے راستے میں جہاد کے لئے اپنے گھر سے نکلتا ہے (اور اس کا مطمح نظر) جہاد فی سبیل اللہ، (اعلائے) کلمتہ اللہ (اور اس) کی تصدیق کے سوا کچھ نہیں تو اللہ اسے جنت کی ضمانت دیتا ہے کہ وہ اسے اس میں داخل کرے گا یا اجر یا غنیمت عطا کرنے کے بعد اسے گھر واپس بھیج دے گا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/0/0: 553]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 7463، من حديث مالك به ورواه مسلم 104/1876، من حديث ابي الزناد به]
تفقه:
➊ ہر عمل کے لئے نیت کا خالص ہونا ضروری ہے ورنہ سارے اعمال باطل اور رائیگاں ہو جائیں گے۔
➋ جہاد کے لئے عقیدے کا صحیح ہونا ضروری ہے جیسا کہ اس کے کلمے کی تصدیق کے لئے نکلتا ہے سے ثابت ہوتا ہے۔ معلوم ہوا کہ صحیح حدیث کا انکار کرنے والے لوگ ہر قسم کے جہاد سے محروم و بدنصیب ہیں۔
➌ جہاد اسلام کا عظیم الشان رکن بلکہ اسلام کی چوٹی ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 346   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 36  
´جہاد بھی جزو ایمان ہے`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" انْتَدَبَ اللَّهُ لِمَنْ خَرَجَ فِي سَبِيلِهِ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ کی راہ میں (جہاد کے لیے) نکلا، اللہ اس کا ضامن ہو گیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 36]

تشریح:
حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ نے پچھلے ابواب میں نفاق کی نشانیوں کا ذکر فرمایا تھا، اب ایمان کی نشانیوں کو شروع فرما رہے ہیں۔ چنانچہ لیلۃ القدر کا قیام جو خالصاً اللہ کی رضا کے لیے ہو۔ بتلایا گیا کہ وہ بھی ایمان کا ایک حصہ ہے۔ اس سے حضرت امام کا مقصد ثابت ہوا کہ اعمال صالحہ ایمان میں داخل ہیں اور ان کی کمی و بیشی پر ایمان کی کمی و بیشی منحصر ہے۔ پس مرجیہ و کرامیہ جو عقائد رکھتے ہیں وہ سراسر باطل ہیں۔ لیلۃ القدر تقدیر سے ہے یعنی اس سال میں جو حوادث پیش آنے والے ہیں ان کی تقدیرات کا علم فرشتوں کو دیا جاتا ہے، «قدر» کے معنی حرمت کے بھی ہیں اور اس رات کی عزت قرآن مجید ہی سے ظاہر ہے، شب قدر رمضان شریف کی طاق راتوں میں سے ایک رات ہے جو ہر سال ادلتی بدلتی رہتی ہے۔

قیام رمضان اور قیام لیلۃ القدر من الدین کے درمیان حضرت امام نے جہاد کا ذکر فرمایا کہ یہ بھی ایمان کا ایک جز و اعظم ہے۔ حضرت امام نے اپنی گہری نظر کی بنا پر جہاں اشارہ فرمایا ہے کہ جہاد مع النفس ہو (یعنی نفس کے ساتھ جہاد ہو) جیسا کہ رمضان شریف کے روزے اور قیام لیلۃ القدر وغیرہ ہیں۔ یہ بھی ایمان میں داخل ہیں۔ اور جہاد بالکفار ہو تو یہ بھی ایمان کا حصہ ہے۔ نیز اس طرف بھی اشارہ کرنا ہے کہ جہاد اگر رمضان شریف میں واقع ہو تو اور زیادہ ثواب ہے۔ پھر اگر شہادت فی سبیل اللہ بھی نصیب ہو جائے تو نور علی نو رہے۔

حدیث سے جہاد کا مفہوم ظاہر ہے کہ مجاہد فی سبیل اللہ صرف وہی ہے جس کا خروج خالص اللہ کی رضا کے لیے ہو۔ تصدیق رسل سے مراد ان جملہ بشارتوں پر ایمان لانا اور ان کی تصدیق کرنا ہے جو اللہ کے رسولوں نے جہاد فی سبیل اللہ سے متعلق بیان فرمائی ہیں۔ مجاہد فی سبیل اللہ کے لیے اللہ پاک نے دو ذمہ داریاں لی ہیں۔ اگر اسے درجہ شہادت مل گیا تو وہ سیدھا جنت میں داخل ہوا، حوروں کی گود میں پہنچا اور حساب و کتاب سب سے مستثنیٰ ہو گیا۔ وہ جنت کے میوے کھاتا ہے اور معلق قندیلوں میں بسیرا کرتا ہے اور اگر وہ سلامتی کے ساتھ گھر واپس آ گیا تو وہ پورے پورے ثواب کے ساتھ اور ممکن ہے کہ مال غنیمت کے ساتھ بھی واپس ہوا ہو۔

اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شہادت کی تمنا فرمائی۔ جس سے آپ امت کو مرتبہ شہادت بتلانا چاہتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ نے مومنوں سے ان کی جانوں اور مالوں کے بدلے میں جنت کا سودا کر لیا ہے جو بہترین سودا ہے۔

حدیث شریف میں جہاد کو قیامت تک جاری رہنے کی خبر دی گئی ہے۔ ہاں طریقہ کار حالات کے تحت بدلتا رہے گا۔ آج کل قلبی جہاد بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 36   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2753  
´اللہ کی راہ میں جہاد کی فضیلت۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے لیے جو اس کی راہ میں نکلے، اور اسے اس کی راہ میں صرف جہاد اور اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کے رسولوں کی تصدیق ہی نے نکالا ہو، (تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) میں اس کے لیے ضمانت لیتا ہوں کہ اسے جنت میں داخل کروں، یا اجر و ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ اس منزل تک لوٹا دوں جہاں سے وہ گیا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر مجھے مسلمانوں کے مشقت میں پڑ جانے کا ڈر نہ ہوتا تو میں کسی بھی سریہ (لشکر) کا ج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2753]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جس طرح ہر نیک عمل کی قبولیت کے لیے خلوص نیت شرط ہے۔
اسی طرح جہاد فی سبیل اللہ کی قبولیت کے لیے بھی خلوص نیت شرط ہے۔

(2)
جہاد تمام رسولوں پر ایمان کا ثبوت ہے۔
کیونکہ اس کا حکم تمام شریعتوں میں موجود رہا ہے البتہ بعض انبیاء ؑ نے اس کی شرط پوری نہ ہونے کی وجہ سےجہاد بالسیف نہیں کیا۔

(3)
خلوص کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ کا ثواب ہر صورت میں ملتا ہے خواہ مجاہد غنیمت حاصل کر کے خیریت سے گھر پہنچ جائے یا کافروں سے لڑتا ہوا شہید ہوکر جنت میں پہنچ جائے۔

(4)
بعض حالات میں جہاد فرض کفایہ ہوتا ہے۔
اس صورت میں پیچھے رہنے والے گناہ گار نہیں ہوتے۔
اگر کوئی حکمت پیش نظر ہو تو افضل کام چھوڑ کر دوسرا جائز کام کیا جاسکتا ہے۔

(5)
کسی جماعت کے سربراہ یا قوم کے قائد کو متبعین کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے بشرطیکہ ناجائز کام کا ارتکاب نہ ہو۔

(6)
بات میں تاکید پیدا کرنے کے لیے اللہ کی قسم کھانا جائز ہے۔

(7)
قسم میں اللہ کے نام کے بجائےاس کی کسی صفت کا ذکر کرنا بھی جائز ہے
(8)
ناممکن کام کی تمنا جائز ہےجب کہ وہ نیکی سے تعلق رکھتا ہو۔

(9)
شہادت کا مقام اتنا عظیم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہیدوں سے افضل ہونے کے باوجود یہ تمنا رکھتے تھےکہ انھیں شہادت کا مقام بھی حاصل ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2753   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1619  
´جہاد کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ کہا گیا: اللہ کے رسول! کون سا عمل (اجر و ثواب میں) جہاد کے برابر ہے؟ آپ نے فرمایا: تم لوگ اس کی طاقت نہیں رکھتے، صحابہ نے دو یا تین مرتبہ آپ کے سامنے یہی سوال دہرایا، آپ ہر مرتبہ کہتے: تم لوگ اس کی طاقت نہیں رکھتے، تیسری مرتبہ آپ نے فرمایا: اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کی مثال اس نمازی اور روزہ دار کی ہے جو نماز اور روزے سے نہیں رکتا (یہ دونوں عمل مسلسل کرتا ہی چلا جاتا) ہے یہاں تک کہ اللہ کی راہ کا مجاہد واپس آ جائے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب فضائل الجهاد/حدیث: 1619]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی جس طرح اللہ کی عبادت میں ہرآن اور ہر گھڑی مشغول رہنے والے روزے دار اور نمازی کا ثواب برابر جاری رہتا ہے،
اسی طرح اللہ کی راہ کے مجاہد کا کوئی وقت ثواب سے خالی نہیں جاتا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1619   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4859  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:

تَضَمَّنَ الله اور تَكَفَّلَ الله کا معنی ہے کہ اللہ اس کا ضامن اور کفیل ہے۔
(2)
فَهُوَ عَلي ضَامِن:
وہ میری ذمہ داری اور ضمان میں ہے۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
اگر انسان جہاد میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے،
رسول نے جو جہاد کے فضائل بتائے ہیں،
ان کو دل کی گہرائی سے تسلیم کرتے ہوئے نکلتا ہے،
تو شہادت کی صورت میں وہ جنتی ٹھہرتا ہے اور واپسی کی صورت میں محض اجر یا غنیمت دونوں سے حصہ پاتا ہے اور اگر اسے زخم لگتا ہے،
تو وہ قیامت کے دن زخمی حالت میں اٹھے گا،
اس کے زخم سے خوب بہہ رہا ہو گا،
جس کی خوشبو کستوری کی طرح ہو گی اور شہادت اس قدر بلند مرتبہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بار بار حاصل ہونے کی تمنا اور آرزو کی،
حالانکہ دنیوی مشکلات اور مصائب سے گھبرا کر موت کی خواہش کرنا جائز نہیں ہے،
مقصد یہ ہے کہ شہادت کی آرزو کی صورت میں انسان اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے دین کی سربلندی اور دشمن سے مسلمانوں کے دفاع اور تحفظ کا باعث بنتا ہے،
دشمن کی کامیابی کا خواہاں نہیں ہوتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4859