صحيح مسلم
كِتَاب الْإِمَارَةِ -- امور حکومت کا بیان
32. باب مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كُفِّرَتْ خَطَايَاهُ إِلاَّ الدَّيْنَ:
باب: شہید کا ہر گناہ شہادت کے وقت معاف ہو جاتا ہے سوائے قرض کے۔
حدیث نمبر: 4880
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَامَ فِيهِمْ فَذَكَرَ لَهُمْ أَنَّ الْجِهَادَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْإِيمَانَ بِاللَّهِ أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ قُتِلْتُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تُكَفَّرُ عَنِّي خَطَايَايَ؟، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ، إِنْ قُتِلْتَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأَنْتَ صَابِرٌ مُحْتَسِبٌ مُقْبِلٌ غَيْرُ مُدْبِرٍ "، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَيْفَ قُلْتَ؟ "، قَالَ: أَرَأَيْتَ إِنْ قُتِلْتُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَتُكَفَّرُ عَنِّي خَطَايَايَ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ، وَأَنْتَ صَابِرٌ مُحْتَسِبٌ مُقْبِلٌ غَيْرُ مُدْبِرٍ، إِلَّا الدَّيْنَ فَإِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام قَالَ لِي ذَلِكَ ".
لیث نے سعید بن ابی سعید (مقبری) سے، انہوں نے عبداللہ بن ابی قتادہ سے، انہوں نے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے انہیں (ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کو) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام میں (خطبہ دینے کے لئے) کھڑے ہوئے اور انہیں بتایا: "اللہ کی راہ میں جہاد کرنا اور اللہ پر ایمان لانا (باقی) تمام اعمال سے افضل ہے۔" ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! آپ کیا فرماتے ہیں؟ اگر میں اللہ کی راہ میں شہید کر دیا جاؤں تو کیا اس سے میرے گناہ مجھ سے دور ہٹا دئیے جائیں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "ہاں، اگر تم اللہ کی راہ میں اس حالت میں شہید کر دیے جاؤ کہ تم صبر کرنے والے (ڈٹے ہوئے) ہو، صرف اللہ کی رضا چاہتے ہو، آگے بڑح رہے ہو، پیٹھ پھیر کر نہ بھاگ رہے ہو۔" اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم نے کس طرح کہا تھا؟" اس نے عرض کی (میں نے اس طرح کہا تھا): آپ کیا فرماتے ہیں؟ اگر میں اللہ کی راہ میں شہید کیا جاؤں تو کیا میرے گناہ مجھ سے دور ہٹا دئیے جائیں گے۔" آپ نے فرمایا: "ہاں، اگر تم اس حالت میں اللہ کی راہ میں شہید کر دیے جاؤ کہ صبر کرنے والے (ڈٹے ہوئے) ہو، صرف اللہ کی رضا چاہتے ہو، آگے بڑح رہے ہو، پیٹھ پھیر کر بھاگنے والے نہیں، (تو سارے گناہ مٹا دیے جائیں گے) سوائے قرض کے۔ جبریل علیہ السلام نے (ابھی آ کر) مجھ سے یہ کہا ہے۔"
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور ان کے درمیان وعظ کے لیے کھڑے ہوئے اور بیان فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد اور اللہ پر ایمان سب سے بہتر عمل ہے۔ تو ایک آدمی کھڑا ہو کر کہنے لگا، یا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم! مجھے بتائیے، اگر میں اللہ کی راہ میں قتل کر دیا جاؤں، تو کیا مجھے میرے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ہاں، اگر تو اللہ کی راہ میں، صابر اور ثواب کی نیت کرتے ہوئے، سامنے منہ کر کے، پشت دکھا کے نہیں، قتل ہو گیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تو نے کیا کہا؟ اس نے کہا، بتائیے، اگر میں اللہ کی راہ میں قتل کر دیا جاؤں، تو کیا مجھے میرے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، جبکہ تو صبر کرنے والا، رضائے الٰہی کا طالب، آگے بڑھنے والا، نہ کہ پشت دکھانے والا ہو، بشرطیکہ تجھ پر قرضہ نہ ہو، کیونکہ جبریل علیہ السلام نے ابھی ابھی مجھے بتایا ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 525  
´قرض کی کسی صورت میں معافی نہیں ہے`
«. . . 507- مالك عن يحيى بن سعيد عن سعيد بن أبى سعيد المقبري عن عبد الله بن أبى قتادة عن أبيه أنه قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، إن قتلت فى سبيل الله صابرا محتسبا مقبلا غير مدبر، أيكفر الله عني خطاياي؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نعم فلما أدبر الرجل ناداه رسول الله صلى الله عليه وسلم أو أمر به فنودي له، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كيف قلت؟ فأعاد عليه قوله، فقال له النبى صلى الله عليه وسلم: نعم إلا الدين، كذلك قال لي جبريل. . . .»
. . . سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی نے آ کر کہا: یا رسول اللہ! اگر میں اللہ کے راستے میں اس حالت میں قتل ہو جاؤں کہ میں صبر کرنے والا، نیت خالص والا، آگے بڑھ کر حملہ کرنے والا اور پیٹھ نہ پھیرنے والا ہوا، تو کیا اللہ میری خطائیں معاف فرما دے گا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! پھر جب وہ آدمی پیٹھ پھیر کر واپس چلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا یا بلانے کا حکم دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: تو نے کیسے کہا تھا؟ اس نے اپنی بات دوبارہ کہی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ہاں! سوائے قرض کے، اسی طرح مجھے جبریل نے کہا ہے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 525]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه النسائي 34/6 ح 3158، من حديث ابن القاسم عن مالك به ورواه مسلم 1885/117، من حديث يحيي بن سعيد الانصاري به من رواية يحيي بن يحيي وجاء فى الأصل: بْنِ سَعِيْدِ وهو خطأ]

تفقه:
➊ جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے علاوہ حدیث بھی بطور وحی لاتے تھے جیسا کہ اس حدیث میں «إلا الدَّين» سے واضح ہے لہذا حدیث بھی وحی ہے۔
● سیدنا حسان بن عطیہ رحمہ اللہ (مشہور تا بعی) نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبریل علیہ السلام (ایسے) سنت لے کر نازل ہوتے جس طرح قرآن لے کر نازل ہوتے تھے اور آپ کو سنت اسی طرح سکھاتے جس طرح آپ کو قرآن سکھاتے تھے۔ [المراسل لا بي داود: 536 وسنده صحيح، السنة للمروزي ص 33 ح 102، وسنده صحيح]
➋ قرض کبھی معاف نہیں ہوتا إلا یہ کہ قرض خواہ خود معاف کردے۔
➌ نیک اعمال سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
➍ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کے بارے میں حافظ ابن عبد البر لکھتے ہیں:
۔ «وكلّ من الله إلا ماقام عليه الدليل فإنه لا ينطق عن الهوى صلَّى اللهُ عَليهِ وسَلمَ و شرف و كرم» . سب اللہ کی طرف سے ہے سوائے اس کے جس(کی تخصیص) پر دلیل قائم ہو کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اپنی) خواہش سے نہیں بولتے، اللہ آپ کو شرف و کرم سے نوازے۔ [التمهيد 241/23]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 507   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1712  
´اللہ کی راہ میں قتل ہونے والے پر قرض ہو تو کیا حکم ہے؟`
ابوقتادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے بیچ کھڑے ہو کر ان سے بیان کیا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا اور اللہ پر ایمان لانا سب سے افضل عمل ہے ۱؎، (یہ سن کر) ایک آدمی کھڑا ہوا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کا کیا خیال ہے اگر میں اللہ کی راہ میں شہید ہو جاؤں، تو کیا میرے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اگر تم اللہ کی راہ میں شہید ہو گئے اس حال میں کہ تم صبر کرنے والے، ثواب کی امید رکھنے والے ہو، آگے بڑھنے والے ہو، پیچھے مڑنے والے نہ ہو، پھر آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1712]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
افضل اعمال کے سلسلہ میں مختلف احادیث میں مختلف اعمال کو افضل بتایاگیا ہے،
اس کی مختلف توجیہیں کی گئی ہیں،
ان احادیث میں أفضل الأعمال سے پہلے من پوشیدہ مانا جائے،
مفہوم یہ ہوگا کہ یہ اعمال افضل ہیں،
یا ان کا تذکرہ احوال واوقات اور جگہوں کے مختلف ہونے کے اعتبار سے ہے،
یہ بھی کہا جاتاہے کہ مخاطب کی روسے مختلف اعمال کی افضلیت کو بیان کیاگیا ہے۔
2؎:
یعنی وہ قرض جس کی ادائیگی کی نیت نہ ہو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1712   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4880  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ایمان باللہ دین کی بنیاد اور اساس ہے،
اس کے بغیر کوئی عمل قابل قبول نہیں ہے اور ارکان خمسہ میں سے یہ اساس ہے اور جہاد اگرچہ ارکان خمسہ میں داخل نہیں ہے،
لیکن یہ ان کا محافظ ہے اور دین کی اقامت اس کے بغیر ممکن نہیں ہے،
لیکن حقوق العباد کا مارنا اتنا سنگین جرم ہے،
کہ جہاد جیسی عظیم چیز بھی اس کی تلافی نہیں کر سکتی،
لیکن آج لوگوں کا پیسہ کھانا اور ان کے حقوق پامال کرنا حقیر عمل سمجھا جاتا ہے اور لوگوں کے مال و جائیداد ہڑپ کرنے کے لیے قبضہ گروپ دندناتے پھرتے ہیں،
کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہے،
نیز اگر مال کا ہڑپ کرنا معاف نہیں ہو سکتا،
تو قتل اور خون بہانا کیسے معاف ہو سکتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4880