صحيح مسلم
كِتَاب الْإِمَارَةِ -- امور حکومت کا بیان
35. باب بَيَانِ الرَّجُلَيْنِ يَقْتُلُ أَحَدُهُمَا الآخَرَ يَدْخُلاَنِ الْجَنَّةَ:
باب: قاتل اور مقتول دونوں کب جنت میں جائیں گے۔
حدیث نمبر: 4892
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْمَكِّيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَضْحَكُ اللَّهُ إِلَى رَجُلَيْنِ يَقْتُلُ أَحَدُهُمَا الْآخَرَ كِلَاهُمَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ "، فَقَالُوا: كَيْفَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: " يُقَاتِلُ هَذَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَيُسْتَشْهَدُ ثُمَّ يَتُوبُ اللَّهُ عَلَى الْقَاتِلِ، فَيُسْلِمُ فَيُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَيُسْتَشْهَدُ ".
محمد بن ابی عمر مکی نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سفیان نے ابوزناد سے، انہوں نے اعرج سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ دو آدمیوں کی طرف (دیکھ کر) ہنستا ہے، ان دونوں میں سے ایک آدمی دوسرے کو قتل کرتا ہے اور دونوں جنت میں داخل ہو جاتے ہیں۔" صحابہ کرام نے پوچھا: اللہ کے رسول! یہ کیسے (ممکن) ہے؟ آپ نے فرمایا: "ایک شخص اللہ کی راہ میں جنگ کرتا ہے اور شہید ہو جاتا، پھر اللہ اس کے قاتل کو توبہ کی توفیق عطا کرتا ہے تو وہ مسلمان ہو جاتا ہے، پھر وہ (بھی) اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے اور شہید ہو جاتا ہے۔" (جیسا کہ حضرت حمزہ اور وحشی بن حرب رضی اللہ عنہما ہیں۔)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ان دو آدمیوں کو دیکھ کر ہنستا ہے، جن میں سے ایک دوسرے کو قتل کرتا ہے اور دونوں جنت میں داخل ہو جاتے ہیں۔ صحابہ کرام نے پوچھا، اللہ کے رسول! کیسے ہو گا؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک اللہ کی راہ میں جنگ کرتا ہے اور شہید کر دیا جاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ قاتل کو توبہ کی توفیق دیتا ہے، تو مسلمان ہو جاتا ہے، پھر اللہ عزوجل کی راہ میں لڑتا ہے اور شہید کر دیا جاتا ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 7  
´صفات الہٰی کا بیان`
«. . . 348- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: يضحك الله إلى رجلين يقتل أحدهما الآخر كلاهما يدخل الجنة، يقاتل هذا فى سبيل الله فيقتل، ثم يتوب الله على القاتل فيقاتل فيستشهد . . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ دو آدمیوں پر ہنستا ہے (جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے) جن میں سے ایک دوسرے کو قتل کرتا ہے (اور) دونوں جنت میں داخل ہو جاتے ہیں۔ یہ شخص فی سبیل اللہ قتال کرتا ہے تو قتل ہو جاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ قاتل کو توبہ (اسلام قبول کرنے) کی توفیق دیتا ہے پھر وہ قتال کرتا ہے تو شہید ہو جاتا ہے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 7]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2826، من حديث مالك، ومسلم 1890، من حديث ابي الزناد به ورواه النسائي 6/38، 39 ح3168، من حديث عبدالرحمٰن بن القاسم به]
تفقه:
➊ روایت مذکورہ میں قاتل کافر اور مقتول مسلمان ہے۔ مسلمان میدان جنگ میں کافر کے ہاتھوں شہید ہوا ہے۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے کافر کو مسلمان ہونے کی توفیق بخشی لہٰذا سابق کافر اور حال مسلمان نے اسلام قبول کرنے کے بعد کافروں سے جہاد کیا جس میں اسے بھی شہادت کا رتبہ مل گیا۔ اس لحاظ سے سابقہ قاتل وحال مقتول دونوں جنتی ہیں۔
➋ اللہ تعالیٰ کا ہنسنا اور استہزاء فرمانا اس کی ایک صفت ہے۔ «كما يليق بجلاله عز وجل»، اسے مخلوق سے مشابہت دینا باطل ومردود ہے۔
➌ اہلِ ایمان کو ہر وقت جہاد میں مستعد رہنا چاہئے۔
➍ اللہ تعالیٰ نے مجاہدین و شہداء کے لئے جنت کے دروازے کھول رکھے ہیں۔
➎ سچی توبہ کرنے سے سابقہ تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
➏ ایمان قول وعمل اور دلی یقین کا نام ہے۔
➐ حافظ ابن عبدالبر نے اللہ تعالیٰ کے ہنسنے سے اس کا رحم (اور فضل وکرم) مراد لیا ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 18/345]
لیکن ابن الجوزی کے نزدیک اس عقیدے کے ساتھ اسے بیان کرنا چاہئے کہ یہ اللہ کی صفت ہے اور مخلوق سے مشابہ نہیں ہے۔ دیکھئے: [فتح الباري 6/40 ح2822] اور یہی راجح ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 348   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث191  
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ان دو افراد کے حال پر ہنستا ہے جن میں سے ایک دوسرے کو قتل کرتا ہے، اور دونوں جنت میں داخل ہوتے ہیں، ایک اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتال کرتا ہے اور شہید کر دیا جاتا ہے، پھر اس کے قاتل کو اللہ تعالیٰ توبہ کی توفیق دیتا ہے، اور وہ اسلام قبول کر لیتا ہے، پھر اللہ کی راہ میں لڑائی کرتا ہے اور شہید کر دیا جاتا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 191]
اردو حاشہ:
(1)
اس سے اللہ کی صفت ضحك (ہنسنا)
کا ثبوت ملتا ہے لیکن اللہ کی صفات پر ایمان رکھنے کے باوجود انہیں مخلوق کی صفات سے تشبیہ دینا جائز نہیں۔

(2)
اللہ کا ہنسنا اس کی رضا مندی اور خوشنودی کا اظہار ہے اور رضا (خوشنودی)
بھی اللہ کی ایک صفت ہے۔

(3)
انسانوں کے انجام کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے، بڑے سے بڑے مجرم کے بارے میں یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ہدایت سے نواز دے، اس لیے جب تک کسی شخص کی موت کفر پر نہیں ہوتی اس کے بارے میں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ اسے ہدایت نصیب نہیں ہو گی، لہذا اسے تبلیغ کرتے رہنا چاہیے۔

(4)
اسلام قبول کرنے کی وجہ سے پہلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، اس لیے دوسرے آدمی کو ایک مومن کے قتل کے باوجود جہنم کی سزا نہیں ملی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 191