صحيح مسلم
كِتَاب الْإِمَارَةِ -- امور حکومت کا بیان
49. باب فَضْلِ الْغَزْوِ فِي الْبَحْرِ:
باب: دریا میں جہاد کرنے کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 4934
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَدْخُلُ عَلَى أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ، فَتُطْعِمُهُ وَكَانَتْ أُمُّ حَرَامٍ تَحْتَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فَأَطْعَمَتْهُ ثُمَّ جَلَسَتْ تَفْلِي رَأْسَهُ، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ اسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: مَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: " نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ، يَرْكَبُونَ ثَبَجَ هَذَا الْبَحْرِ مُلُوكًا عَلَى الْأَسِرَّةِ أَوْ مِثْلَ الْمُلُوكِ عَلَى الْأَسِرَّةِ "، يَشُكُّ أَيَّهُمَا، قَالَ: قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، فَدَعَا لَهَا ثُمَّ وَضَعَ رَأْسَهُ، فَنَامَ ثُمَّ اسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: مَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: " نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَا قَالَ فِي الْأُولَى "، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ: " أَنْتِ مِنَ الْأَوَّلِينَ "، فَرَكِبَتْ أُمُّ حَرَامٍ بِنْتُ مِلْحَانَ الْبَحْرَ فِي زَمَنِ مُعَاوِيَةَ، فَصُرِعَتْ عَنْ دَابَّتِهَا حِينَ خَرَجَتْ مِنَ الْبَحْرِ فَهَلَكَتْ.
اسحٰق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا (جو حضور کی رضاعی خالہ لگتی تھیں) کے پاس تشریف لے جاتے اور وہ آپ کو کھانا پیش کرتی تھیں، (بعد ازاں) وہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے نکاح میں (آ گئی) تھیں، ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں گئے، انہوں نے آپ کو کھانا پیش کیا اور پھر بیٹھ کر آپ کے سر میں جوئیں تلاش کرنے لگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے، پھر آپ ہنستے ہوئے بیدار ہوئے، حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا نے کہا، میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: "میری امت کے کچھ لوگ، اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے میرے سامنے پیش کیے گئے، وہ اس سمندر کی پشت پر سوار ہوں گے۔ وہ تخت پر بیٹھے ہوئے بادشاہ ہوں گے، یا اپنے اپنے تخت پر بیٹھے ہوئے بادشاہ ہوں گے، یا اپنے اپنے تخت پر بیٹھے ہوئے بادشاہوں کی طرح ہوں گے۔" انہٰں شک تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟ کہا: تو ام حرام رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے بھی ان مجاہدین میں شامل کر دے۔ آپ نے ان کے لیے دعا کی اور پھر اپنا سر (تکیے پر) رکھ کر سو گئے، پھر آپ ہنستے ہوئے بیدار ہوئے، میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: "مجھے (خواب میں) میری امت کے کچھ لوگ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے دکھائے گئے۔" جس طرح پہلی مرتبہ فرمایا تھا، میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے بھی ان میں شامل کر دے۔ آپ نے فرمایا: "تم اولین لوگوں میں سے ہو۔" پھر حضرت ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سمندر میں (بحری بیڑے پر) سوار ہوئیں اور جب سمندر سے باہر نکلیں تو اپنی سواری کے جانور سے گر کر شہید ہو گئیں۔ (اس طرح شہادت پائی۔)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ام حرام بنت ملحان رضی اللہ تعالی عنہا کے ہاں تشریف لے جایا کرتے تھے اور وہ آپ کو کھانا پیش کرتی تھیں اور وہ (وفات کے وقت) حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ کی اہلیہ تھیں، ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ہاں تشریف لے گئے اور اس نے آپ کو کھانا کھلایا، پھر بیٹھ کر آپ کے سر سے جوئیں دیکھنے لگیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم ہنستے ہوئے بیدار ہوئے، تو اس نے پوچھا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! آپ کس بنا پر ہنس رہے ہیں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ مجھ پر اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے پیش کیے گئے، جو اس سمندر کی پشت پر اس طرح سوار ہوں گے، جس طرح بادشاہ اپنے تختوں پر براجمان ہوتے ہیں، (یعنی وہ بڑے سکون اور اطمینان کے ساتھ بحری جنگی سفر کریں گے۔) یا آپ نے مثل کا لفظ استعمال کیا، راوی کو شک ہے، ام حرام رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں، میں نے عرض کی، اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! اللہ سے دعا فرمائیں، کہ وہ مجھے بھی ان میں شریک کرے، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے حق میں دعا فرمائی، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم سر رکھ کر سو گئے، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم ہنستے ہوئے بیدار ہوئے، تو وہ کہتی ہیں، میں نے پوچھا، آپصلی اللہ علیہ وسلم کیوں ہنس رہے ہیں؟ اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ مجھ پر اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے پیش کیے گئے ہیں، جیسا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی دفعہ فرمایا تھا، تو میں نے کہا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے ان میں سے کر دے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پہلے گروہ میں داخل ہے تو ام حرام رضی اللہ تعالی عنہا حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں سمندر پر سوار ہوئیں اور جب وہ سمندر سے باہر نکلیں تو انہیں سواری نے گرا دیا جس سے وہ فوت ہو گئیں۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4934  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محرم تھیں،
لیکن اس کی کیفیت میں اختلاف ہے،
بقول بعض آپﷺ کی رضاعی خالہ تھیں اور بقول بعض آپ کے باپ یا دادا عبدالمطلب کی خالہ تھیں،
کیونکہ انہی کی والدہ بنو نجار سے تھیں،
اس لیے آپﷺ اس کے ہاں جاتے اور آپ نے انہیں اپنے خواب کا واقعہ سنایا،
کہ میری جماعت کے کچھ لوگ بڑی ٹھاٹھ باٹھ اور شان و شوکت کے ساتھ سمندری جہاد کریں گے،
جس پر ام حرام رضی اللہ عنہا نے بھی ان میں شامل ہونے کی آرزو کی،
تو آپﷺ نے ان کے حق میں دعا فرمائی اور پھر یہ واقعہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں 28ھ میں جبکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ شام کے گورنر تھے،
پیش آیا اور وہ آپ کی امت کے سب سے پہلے امیر البحر تھے اور یہ واقعہ آپ کی پیش گوئی کے مطابق پیش آیا،
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی بحری جہاد کی اجازت طلب کی تھی،
لیکن انہوں نے اجازت نہ دی،
پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے اجازت طلب کی اور اس پر اصرار کرتے رہے،
جس کی بنا پر انہوں نے اس شرط کے ساتھ اجازت دی،
جو لوگ راضی خوشی،
خودبخود جانا چاہیں،
انہیں لے جاؤ،
انہوں نے اس کو قبول کر لیا،
اس سفر میں حضرت ام ملحان رضی اللہ عنہا بھی تھیں،
وہ واپسی پر اپنے خاوند کے ساتھ سواری پر سوار ہوئیں اور گر کر مر گئیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4934