صحيح البخاري
كِتَاب التَّهَجُّد -- کتاب: تہجد کا بیان
28. بَابُ مَا يُقْرَأُ فِي رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ:
باب: فجر کی سنتوں میں قرآت کیسی کرے؟
حدیث نمبر: 1171
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَمَّتِهِ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , قَالَتْ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَفِّفُ الرَّكْعَتَيْنِ اللَّتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الصُّبْحِ، حَتَّى إِنِّي لَأَقُولُ هَلْ قَرَأَ بِأُمِّ الْكِتَابِ".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن عبدالرحمٰن نے، ان سے ان کی پھوپھی عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے اور ان سے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (دوسری سند) اور ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید انصاری نے بیان کیا، ان سے محمد بن عبدالرحمٰن نے، ان سے عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے اور ان سے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی (فرض) نماز سے پہلے کی دو (سنت) رکعتوں کو بہت مختصر رکھتے تھے۔ آپ نے ان میں سورۃ فاتحہ بھی پڑھی یا نہیں میں یہ بھی نہیں کہہ سکتی۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 947  
´فجر کی دونوں رکعتیں ہلکی پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فجر کی سنتیں پڑھتے دیکھتی، آپ انہیں اتنی ہلکی پڑھتے کہ میں (اپنے جی میں) کہتی تھی: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں سورۃ فاتحہ پڑھی ہے (یا نہیں)۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 947]
947 ۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ مبالغہ ہے جس سے مقصود تخفیف ہے، نہ کہ انہیں شک تھا۔ خصوصاً رات کی نماز (تہجد) کے مقابلے میں تو یہ بہت ہی خفیف معلوم ہوتی ہوں گی، چنانچہ اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ فجر کی دو سنتیں ہلکی پڑھنا مستحب ہے۔
➋ مذکورہ قرأت سورۂ فاتحہ کے علاوہ ہے۔ یہ نہیں کہ صرف یہ آیات یا یہ سورتیں ہی پڑھتے تھے۔ سورۂ فاتحہ کے بارے میں تو آپ کا صریح فرمان ہے کہ جو فاتحہ نہ پڑھے، اس کی نماز نہیں ہوتی۔ [صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 756، و صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 874]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 947   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1198  
´وتر کے بعد اور فجر کی دو رکعت سنت کے بعد لیٹنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی دو رکعت سنت پڑھ لیتے تو دائیں کروٹ لیٹ جاتے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1198]
اردو حاشہ:
فائده:
فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنا سنت ہے۔
لیکن نبی اکرمﷺ سے بعض اوقات نہ لیٹنا بھی ثابت ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی سے مروی ہے۔
انھوں نے فرمایا نبی اکرمﷺ جب فجر کی سنتیں پڑھ لیتے تو اگر میں جاگ رہی ہوتی تو آپ مجھ سے بات چیت كرتے ورنہ لیٹ جائے حتیٰ کہ آپ کو نماز (کی اقامت ہوجانے)
کی اطلاع دی جاتی۔ (صحیح البخاري، التهجد، باب من تحدث بعدالرکعتین ولم یضطع، حدیث: 1161)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1198   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 287  
´نفل نماز کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر سے پہلے دو رکعت ہلکی پڑھتے تھے۔ میں خیال کرتی کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف «‏‏‏‏ام الكتاب» ‏‏‏‏ (سورۃ الفاتحہ) ہی پڑھی۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 287»
تخریج:
«أخرجه البخاري، التهجد، باب ما يقرأ في ركعتي الفجر، حديث:1171، ومسلم، صلاة المسافرين، باب استحباب ركعتي سنة الفجر، حديث:724.»
تشریح:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صبح کی دو سنتیں مختصر اور ہلکی پڑھتے تھے۔
امام شافعی اور جمہور علماء رحمہما اللہ نے اسی بنا پر کہا ہے کہ ان دو رکعتوں میں مختصر قیام افضل ہے جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ان میں بھی لمبا قیام افضل قرار دیتے ہیں۔
لیکن یہ صحیح نہیں۔
ان کے دونوں شاگرد امام ابویوسف اور امام محمد رحمہما اللہ نے بھی ان کی مخالفت کی ہے۔
سورۂ فاتحہ کے علاوہ آپ چھوٹی سورتیں پڑھتے تھے جیسا کہ آئندہ حدیث میں ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 287   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1262  
´فجر کی سنت کے بعد لیٹنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب آخری رات میں اپنی نماز پوری کر چکتے تو اگر میں جاگ رہی ہوتی تو آپ مجھ سے گفتگو کرتے اور اگر سو رہی ہوتی تو مجھے جگا دیتے، اور دو رکعتیں پڑھتے پھر لیٹ جاتے، یہاں تک کہ آپ کے پاس مؤذن آتا اور آپ کو نماز فجر کی خبر دیتا تو آپ دو ہلکی سی رکعتیں پڑھتے، پھر نماز کے لیے نکل جاتے۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1262]
1262۔ اردو حاشیہ:
➊ اس حدیث میں وتروں کے بعد گفتگو کرنے اور دو رکعتیں پڑھ کر لیٹ جانے کا ذکر ہے۔ جس سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ فجر کی دو سنتوں کے بعد لیٹنا سنت نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو یوں ہی استرحت کے لیے لیٹ جاتے تھے، کبھی نماز تہجد کے بعد (جیسا کہ اس حدیث میں ہے) اور کبھی فجر کی سنتوں کے بعد۔ لیکن یہ استدلال اس لیے صحیح نہیں کہ اس حدیث میں گفتگو کرنے اور وتروں کے بعد لیٹنے والی بات محفوظ نہیں ہے یعنی ایک راوی کو وہم ہوا ہے، جب کہ دوسرے تمام راویوں نے لیٹنے کا ذکر سنتوں کے بعد ہی کیا ہے۔ اس لیے فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنے کو غیر مستحب قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ ملاحظہ ہو: [فتح الباري، باب من تحدث بعد الركعتين ولم يضطجع: 3/56]
علاوہ ازیں شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی فجر کی سنتوں سے پہلے لیٹنے اور گفتگو کرنے کو شاذ قرار دیا ہے۔ [ضعيف ابوداؤد]
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وتروں کے بعد دو رکعتیں نفل پڑھنا بھی جائز ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ تم وتر کو اپنی رات کی آخری نماز بناؤ۔ تو یہ حکم وجوب کے طور پر نہیں، استحباب کے طور پر ہے۔ [مرعاة المفاتيح]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1262   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1171  
1171. حضرت عائشہ‬ ؓ ہ‬ی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نماز فجر سے پہلے ہلکی پھلکی سی دو رکعتیں پڑھتے تھے حتی کہ میں سوچتی، شاید رسول اللہ ﷺ نے ان میں فاتحہ پڑھی ہے یا نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1171]
حدیث حاشیہ:
یہ مبالغہ ہے یعنی بہت ہلکی پھلکی پڑھتے تھے۔
ابن ماجہ میں ہے کہ آپ ﷺ ان میں سورۃ کافرون اور سورۃ اخلاص پڑھا کرتے تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1171   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1171  
1171. حضرت عائشہ‬ ؓ ہ‬ی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نماز فجر سے پہلے ہلکی پھلکی سی دو رکعتیں پڑھتے تھے حتی کہ میں سوچتی، شاید رسول اللہ ﷺ نے ان میں فاتحہ پڑھی ہے یا نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1171]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس روایت کے معنی یہ نہیں کہ حضرت عائشہ ؓ کو فجر کی دو سنتوں میں سورۂ فاتحہ پڑھنے کے متعلق شک تھا بلکہ مراد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان کے علاوہ دیگر نوافل میں بہت لمبی قراءت کرتے تھے اور فجر کی دو سنتوں میں تخفیف فرماتے۔
اگر ان میں قراءت کا موازنہ دوسرے نوافل کی قراءت سے کیا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے قراءت ہی نہیں کی۔
(2)
اس روایت کے پیش نظر بعض حضرات نے کہا ہے کہ فجر کی دو سنتوں میں سرے سے قراءت نہیں، حالانکہ اس حدیث کا یہ مقصد نہیں، جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، نیز حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا:
رسول اللہ ﷺ نے فجر کی دو سنتوں میں سورۂ ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ﴿١﴾ )
اور ﴿قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ )
پڑھیں۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1890(726)
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فجر کی دو سنتوں میں ﴿قُولُوا آمَنَّا بِاللَّـهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ﴿١٣٦﴾ ) (البقرة: 136: 2)
اور ﴿فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَىٰ مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّـهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّـهِ آمَنَّا بِاللَّـهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ ﴿٥٢﴾ ) (آل عمران52: 3)
پڑھا کرتے تھے۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1891(727) (3)
فجر کی دو سنتیں چونکہ نماز تہجد کے بعد ادا کی جاتی ہیں، اس لیے مصنف نے مناسب خیال کیا کہ تہجد کے بعد ان کے مسائل و احکام سے آگاہ کر دیا جائے۔
(فتح الباري: 62/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1171