صحيح مسلم
كِتَاب الْأَضَاحِيِّ -- قربانی کے احکام و مسائل
1. باب وَقْتِهَا:
باب: قربانی کا وقت کیا ہے۔
حدیث نمبر: 5069
وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ الْبَرَاءِ ، قَالَ: ضَحَّى خَالِي أَبُو بُرْدَةَ قَبْلَ الصَّلَاةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تِلْكَ شَاةُ لَحْمٍ؟ "، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ عِنْدِي جَذَعَةً مِنَ الْمَعْزِ، فَقَالَ: " ضَحِّ بِهَا وَلَا تَصْلُحُ لِغَيْرِكَ "، ثُمَّ قَالَ: " مَنْ ضَحَّى قَبْلَ الصَّلَاةِ، فَإِنَّمَا ذَبَحَ لِنَفْسِهِ وَمَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلَاةِ، فَقَدْ تَمَّ نُسُكُهُ وَأَصَابَ سُنَّةَ الْمُسْلِمِينَ ".
مطرف نے عامر (شعبی) سے، انھوں نے حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میرے ماموں حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ نے نماز سے پہلے قربانی کردی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " یہ گوشت کی ایک (عام) بکری ہے (قربانی کی نہیں۔) "انھوں (حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ) نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے پاس بکری کا ایک چھ ماہ کا بچہ ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم اس کی قربانی کردو اور یہ تمہارے سوا کسی اور کے لئے جائز نہیں ہے۔"پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص نے نماز سے پہلے ذبح کیا اس نے اپنے (کھانے کے) لئے ذبح کیا ہے اور جس نے نماز کے بعد ذبح کیا تو اس کی قر بانی مکمل ہوگئی اوراس نے مسلمانوں کے طریقے کو پا لیا ہے۔"
حضرت براء رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میرے ماموں ابو بردہ رضی اللہ تعالی عنہ نے نماز سے پہلے قربانی کر دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ گوشت کی بکری ہے۔ اس نے عرض کی، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! میرے ہاں جذعہ بکری ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس کو قربانی کر لو، تیرے سوا کسی کے لیے ٹھیک نہیں ہو گی۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے نماز سے پہلے قربانی کر لی، اس نے تو بس اپنے کھانے کے لیے ذبح کی ہے اور جس نے نماز کے بعد ذبح کی، تو اس کی قربانی مکمل ہو گئی اور اس نے مسلمانوں والا طریقہ اختیار کیا۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1508  
´نماز عید کے بعد قربانی کرنے کا بیان۔`
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن ہمیں خطبہ دیا، آپ نے خطبہ کے دوران فرمایا: جب تک نماز عید ادا نہ کر لے کوئی ہرگز قربانی نہ کرے۔‏‏‏‏ براء کہتے ہیں: میرے ماموں کھڑے ہوئے ۱؎، اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ایسا دن ہے جس میں (زیادہ ہونے کی وجہ سے) گوشت قابل نفرت ہو جاتا ہے، اس لیے میں نے اپنی قربانی جلد کر دی تاکہ اپنے بال بچوں اور گھر والوں یا پڑوسیوں کو کھلا سکوں؟ آپ نے فرمایا: پھر دوسری قربانی کرو، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس دودھ پیتی پٹھیا ہے اور گوشت والی ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الأضاحى/حدیث: 1508]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ان کا نام ابوبردہ بن نیار تھا۔

2؎:
یعنی یہ حکم تمہارے لیے خاص ہے کیوں کہ تمہارے لیے اس وقت مجبوری ہے ورنہ قربانی میں مسنہ (دانتایعنی دودانت والا) ہی جائز ہے،
بکری کا جذعہ وہ ہے جو سال پورا کرکے دوسرے سال میں قدم رکھ چکا ہواس کی بھی قربانی صرف ابوبردہ کے لیے جائز کی گئی تھی،
اس حدیث سے معلوم ہواکہ قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا صحیح وقت صلاۃ عید کے بعد ہے،
اگر کسی نے صلاۃ عید کی ادائیگی سے پہلے ہی جانور ذبح کردیا تو اس کی قربانی نہیں ہوئی،
اسے دوبارہ قربانی کرنی چاہیے۔

3؎:
بھیڑ کے جذعہ (چھ ماہ) کی قربانی عام مسلمانوں کے لیے دانتا میسر نہ ہونے کی صورت میں جائز ہے،
جب کہ بکری کے جذعہ (ایک سالہ) کی قربانی صرف ابوبردہ رضی اللہ عنہ کے لیے جائز کی گئی تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1508   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2801  
´کس عمر کے جانور کی قربانی جائز ہے؟`
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے ابوبردہ نامی ایک ماموں نے نماز سے پہلے قربانی کر لی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: یہ تمہاری بکری گوشت کی بکری ہوئی، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس بکریوں میں سے ایک پلی ہوئی جذعہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسی کو ذبح کر ڈالو، لیکن تمہارے سوا اور کسی کے لیے ایسا کرنا درست نہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2801]
فوائد ومسائل:
مذکورہ بالا احادیث 2798 اور 2799 کو اسی پر محمول کرنا راحج ہے۔
کہ بھیڑ کا ایک سالہ جانور جو دو دانتا نہ ہو جائزہے۔
مگر بکری کی قسم سے جائز نہیں۔
جیسا کہ تفصیل میں گزر چکا ہے۔
دیکھئے (فوائد ومسائل حدیث 2797)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2801   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5069  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
تِلكَ شَاةُ لَحم:
یہ گوشت کے لیے بکری ہے،
یعنی یہ قربانی نہیں ہے،
لیکن اس کو کھا سکتے ہو۔
(2)
جذعة:
پانچ چھ ماہ کا جانور یا بکری اور بقول امام شافعی ایک سال کی بکری۔
جذعة:
بکری جو دوسرے سال میں داخل ہو،
گائے جو تیسرے میں داخل ہو،
اونٹ جو پانچویں سال میں داخل ہو،
بھیڑ بقول جمہور جو پورے سال کی ہو لیکن بقول بعض چھ ماہ آٹھ ماہ اور دس ماہ۔
(منة المنھم ج 3،
ص319)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5069