صحيح البخاري
كِتَاب التَّهَجُّد -- کتاب: تہجد کا بیان
35. بَابُ الصَّلاَةِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ:
باب: مغرب سے پہلے سنت پڑھنا۔
حدیث نمبر: 1184
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ , قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ , قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ , قَالَ: سَمِعْتُ مَرْثَدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْيَزَنِيَّ , قَالَ:" أَتَيْتُ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ الْجُهَنِيَّ , فَقُلْتُ: أَلَا أُعْجِبُكَ مِنْ أَبِي تَمِيمٍ يَرْكَعُ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ!، فَقَالَ عُقْبَةُ: إِنَّا كُنَّا نَفْعَلُهُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: فَمَا يَمْنَعُكَ الْآنَ , قَالَ: الشُّغْلُ".
ہم سے عبداللہ بن یزید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سعید بن ابی ایوب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یزید بن ابی حبیب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے مرثد بن عبداللہ یزنی سے سنا کہ میں عقبہ بن عامر جہنی صحابی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور عرض کیا آپ کو ابوتمیم عبداللہ بن مالک پر تعجب نہیں آیا کہ وہ مغرب کی نماز فرض سے پہلے دو رکعت نفل پڑھتے ہیں۔ اس پر عقبہ نے فرمایا کہ ہم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اسے پڑھتے تھے۔ میں نے کہا پھر اب اس کے چھوڑنے کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ دنیا کے کاروبار مانع ہیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1184  
1184. حضرت مرثد بن عبداللہ یزنی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت عقبہ بن عامر ؓ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ یہ عجیب بات ہے کہ ابوتمیم (عبداللہ جیشانی) نماز مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے ہیں؟ حضرت عقبہ ؓ نے فرمایا: ہم بھی نبی ﷺ کی حیات طیبہ میں پڑھا کرتے تھے۔ انہوں نے عرض کیا: اب کیوں نہیں پڑھتے ہو؟ فرمایا: مصروفیت کی وجہ سے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1184]
حدیث حاشیہ:
ہر دو احادیث سے ثابت ہوا کہ اب بھی موقع ملنے پر مغرب سے پہلے ان دو رکعتوں کو پڑھا جا سکتا ہے۔
اگرچہ پڑھنا ضروری نہیں مگر کوئی پڑھ لے تو یقینا موجب اجر وثواب ہو گا۔
بعض لوگوں نے کہا کہ بعد میں ان کے پڑھنے سے روک دیا گیا۔
یہ بات بالکل غلط ہے پچھلے صفحات میں ان دورکعتوں کے استحباب پر روشنی ڈالی جا چکی ہے۔
عبد اللہ بن مالک جثانی یہ تابعی مخضرم تھا، یعنی آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں موجود تھا، پر آپ سے نہیں ملا، یہ مصر میں حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں آیا، پھر وہیں رہ گیا۔
ایک جماعت نے ان کو صحابہ میں گنا۔
اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ مغرب کا وقت لمبا ہے اور جس نے اس کو تھوڑا قرار دیا اس کا قول بے دلیل ہے۔
مگر یہ رکعتیں جماعت کھڑی ہونے سے پہلے پڑھ لینا مستحب ہے۔
(وحیدي)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1184   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1184  
1184. حضرت مرثد بن عبداللہ یزنی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت عقبہ بن عامر ؓ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ یہ عجیب بات ہے کہ ابوتمیم (عبداللہ جیشانی) نماز مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے ہیں؟ حضرت عقبہ ؓ نے فرمایا: ہم بھی نبی ﷺ کی حیات طیبہ میں پڑھا کرتے تھے۔ انہوں نے عرض کیا: اب کیوں نہیں پڑھتے ہو؟ فرمایا: مصروفیت کی وجہ سے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1184]
حدیث حاشیہ:
(1)
قاضی ابوبکر بن العربی کہتے ہیں کہ صحابۂ کرام ؓ کے بعد ان دو رکعت کو کسی نے نہیں پڑھا۔
یہ حدیث اس بات کی تردید کرتی ہے کیونکہ ابو تمیم تابعی ہیں اور انہوں نے پڑھی ہیں۔
(فتح الباري: 73/3)
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ مدینہ منورہ میں مؤذن مغرب کی اذان کہتا تو ہم سب ستونوں کی طرف دوڑتے اور دو رکعت پڑھتے۔
لوگ اس کثرت سے یہ دو رکعت ادا کرتے کہ اجنبی آدمی گمان کرتا کہ مغرب کی نماز ہو چکی ہے۔
(اور اب بعد کی دو رکعت ادا کی جا رہی ہیں) (صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث: 1939(837)
حضرت انس ؓ ہی کی روایت ہے کہ ہم غروب آفتاب کے بعد دو رکعت ادا کرتے اور رسول اللہ ﷺ ہمیں دیکھ رہے ہوتے۔
آپ نہ تو ہمیں اس کا حکم دیتے اور نہ اس سے منع ہی فرماتے۔
(صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث: 1938(835)
صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز مغرب پڑھانے کے لیے گھر سے تشریف لاتے تو لوگوں کو نماز پڑھتے دیکھتے تھے۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 625) (2)
جو حضرات نماز مغرب سے پہلے یہ سنت ادا کرنا چاہتے ہوں انہیں چاہیے کہ وہ پہلے سے تیار ہوں، یعنی باوضو ہوں، اذان ہوتے ہی انہیں پڑھنا شروع کر دیں تاکہ نماز مغرب کی ادائیگی میں دیر نہ ہو۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1184