صحيح مسلم
كِتَاب الْأَشْرِبَةِ -- مشروبات کا بیان
1. باب تَحْرِيمِ الْخَمْرِ وَبَيَانِ أَنَّهَا تَكُونُ مِنْ عَصِيرِ الْعِنَبِ وَمِنَ التَّمْرِ وَالْبُسْرِ وَالزَّبِيبِ وَغَيْرِهَا مِمَّا يُسْكِرُ:
باب: خمر کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 5127
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ ، عَنْ أَبِيهِ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، قَالَ: " أَصَبْتُ شَارِفًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَغْنَمٍ يَوْمَ بَدْرٍ، وَأَعْطَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَارِفًا أُخْرَى، فَأَنَخْتُهُمَا يَوْمًا عِنْدَ بَابِ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَحْمِلَ عَلَيْهِمَا إِذْخِرًا لِأَبِيعَهُ وَمَعِي صَائِغٌ مِنْ بَنِي قَيْنُقَاعَ، فَأَسْتَعِينَ بِهِ عَلَى وَلِيمَةِ فَاطِمَةَ، وَحَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ يَشْرَبُ فِي ذَلِكَ الْبَيْتِ مَعَهُ قَيْنَةٌ تُغَنِّيهِ، فَقَالَتْ: أَلَا يَا حَمْزُ لِلشُّرُفِ النِّوَاءِ، فَثَارَ إِلَيْهِمَا حَمْزَةُ بِالسَّيْفِ، فَجَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا ثُمَّ أَخَذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا، قُلْتُ لِابْنِ شِهَابٍ: وَمِنَ السَّنَامِ؟، قَالَ: قَدْ جَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا فَذَهَبَ بِهَا، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: قَالَ عَلِيٌّ: فَنَظَرْتُ إِلَى مَنْظَرٍ أَفْظَعَنِي، فَأَتَيْتُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ، فَأَخْبَرْتُهُ الْخَبَرَ، فَخَرَجَ وَمَعَهُ زَيْدٌ، وَانْطَلَقْتُ مَعَهُ، فَدَخَلَ عَلَى حَمْزَةَ فَتَغَيَّظَ عَلَيْهِ، فَرَفَعَ حَمْزَةُ بَصَرَهُ، فَقَالَ: هَلْ أَنْتُمْ إِلَّا عَبِيدٌ لِآبَائِي، فَرَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَهْقِرُ حَتَّى خَرَجَ عَنْهُمْ ".
حجاج بن محمد نے ابن جریج سے روایت کی، کہا: مجھے ابن شہاب نے علی بن حسین بن علی سے حدیث بیان کی، انھوں نے اپنے والد حسین بن علی رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے حضرت علی بن ابی طا لب رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر کے مال غنیمت میں سے ایک (جوان اونٹنی حاصل ہو ئی۔ ایک اور جوان اونٹنی (خمس میں سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عطا فرما ئی۔ایک دن میں نے ان دونوں اونٹنیوں کو ایک انصاری کے دروازے پر بٹھا یا اور میں ان دو نوں پر بیچنے کے لیے اذخر (کی خوشبو دار گھاس) لا دکر لا نا چاہتا تھا۔۔۔بنو قینقاع کا سنار بھی میرے ساتھ تھا۔۔۔اور اس (کی قیمت) سے میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا (کے ساتھ اپنی شادی) کے ولیمے میں مدد لینا چا ہتا تھا۔حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ اس گھر میں (بیٹھے) شراب پی رہے تھے، ان کے قریب ایک گا نے والی عورت گا رہی تھی پھر وہ یہ اشعار گا نے لگی۔ سنیں حمزہ! (اٹھ کر) فربہ اونٹنیوں کی طرف بڑھیں (دوسرا مصرع ہے۔ وَہُنَّ مُعَقَّلَاتٌ بِالْفِنَاءِ"اور گھر کے آگے کھلی جگہ میں بندھی ہو ئی ہیں۔) "حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ تلوار سمیت لپک کر ان کی طرف بڑھے ان کے کوہانوں کو جڑسے کاٹ لیا ان کے پہلو چیردیے پھر ان کے کلیجے نکا ل لیے۔ میں نے ابن شہاب سے کہا: اور کو ہان بھی؟ انھوں نے کہا: وہ (حمزہ رضی اللہ عنہ) ان دونوں کے کو ہان جڑ سے کا ٹ کر لے گئے۔ابن شہاب نے کہا: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے ایک ایسا منظر دیکھا جس نے مجھے دہلا کر رکھ دیا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی آپ کے پاس مو جو د تھے۔آپ زید رضی اللہ عنہ کے ہمرا ہ نکل پڑے۔میں بھی آپ کے ساتھ چلنے لگا۔آپ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور غصے کا اظہار فرمایا۔حمزہ رضی اللہ عنہ نے آنکھ اٹھا ئی اور کہنے لگے: تم میرے آبا واجداد کے غلاموں سے برھ کر کیا ہو! (وہ دونوں جناب عبد المطلب کے پو تے تھے اور رشتے کے حوالے سے خدمت گزاری کے مقام پر تھے۔ حمزہ رضی اللہ عنہ رشتے میں ان سے ایک پشت اوپر تھے۔ انھوں نے شراب کی لہر میں اسی بات کو مبا لغہ آمیز فخر و مباہات کے رنگ میں کہہ دیا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الٹے پاؤں واپس ہو ئے اور ان کی محفل سے نکل آئے۔
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے بدر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غنیمت سے ایک عمر رسیدہ اونٹنی ملی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک اور عمر رسیدہ اونٹنی دے دی، تو ایک دن میں نے ان دونوں کو ایک انصاری کے دروازہ پر بیٹھا اور میں چاہتا تھا کہ ان دونوں پر بیچنے کے لیے اذخر لاؤں اور میرے ساتھ بنو قینقاع کا ایک زرگر بھی تھا، میں اس رقم سے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے شادی پر ولیمہ کی تیاری میں مدد حاصل کرنا چاہتا تھا اور حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس گھر میں شراب پی رہے تھے، ان کے پاس ایک گانے والی گا رہی تھی، اس نے کہا، خبردار! اے حمزہ، فربہ عمر رسیدہ اونٹنیوں کو ذبح کرنے کے لیے اٹھو، تو حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلوار لے کر ان دونوں کی طرف کودے اور ان دونوں کے کوہان کاٹ لیے اور دونوں کے کوکھ چاک کر ڈالے، پھر ان کے جگر نکال لیے، ابن جریج کہتے ہیں، میں نے ابن شہاب سے کہا اور کوہان سے؟ انہوں نے کہا، دونوں کے کوہان کاٹ کر لے گئے، ابن شہاب نے کہا، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، تو میں نے ایسا منظر دیکھا، جس نے مجھ دکھ پہنچایا، تو میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ کے پاس تھے، میں نے آپ کو واقعہ سے آگاہ کیا، تو آپ چل پڑے، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے اور میں بھی آپ کے ساتھ چلا، آپ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئے، اس پر ناراض ہوئے، تو حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی نظر اوپر اٹھا کر کہا، تم میرے بزرگوں کے غلام ہی تو ہو؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الٹے پاؤں لوٹے اور گھر سے نکل گئے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2375  
´بدری صحابیوں کی فضیلت `
«. . . فَأَنَخْتُهُمَا يَوْمًا عِنْدَ بَابِ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَحْمِلَ عَلَيْهِمَا إِذْخِرًا لِأَبِيعَهُ، وَمَعِي صَائِغٌ مِنْ بَنِي قَيْنُقَاعَ فَأَسْتَعِينَ بِهِ عَلَى وَلِيمَةِ فَاطِمَةَ، وَحَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ المُطَّلِبِ يَشْرَبُ فِي ذَلِكَ الْبَيْتِ مَعَهُ قَيْنَةٌ، فَقَالَتْ: أَلَا يَا حَمْزُ لِلشُّرُفِ النِّوَاءِ، فَثَارَ إِلَيْهِمَا حَمْزَةُ بِالسَّيْفِ، فَجَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا، ثُمَّ أَخَذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا، قُلْتُ لِابْنِ شِهَابٍ: وَمِنَ السَّنَامِ، قَالَ: قَدْ جَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا فَذَهَبَ بِهَا. . .»
حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ اسی (انصاری کے) گھر میں شراب پی رہے تھے۔ ان کے ساتھ ایک گانے والی بھی تھی۔ اس نے جب یہ مصرعہ پڑھا: ہاں: اے حمزہ! اٹھو، فربہ جوان اونٹنیوں کی طرف (بڑھ) حمزہ رضی اللہ عنہ جوش میں تلوار لے کر اٹھے اور دونوں اونٹنیوں کے کوہان چیر دیئے۔ ان کے پیٹ پھاڑ ڈالے۔ اور ان کی کلیجی نکال لی (ابن جریج نے بیان کیا کہ) میں نے ابن شہاب سے پوچھا، کیا کوہان کا گوشت بھی کاٹ لیا تھا۔ تو انہوں نے بیان کیا کہ ان دونوں کے کوہان کاٹ لیے اور انہیں لے گئے۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، مجھے یہ دیکھ کر بڑی تکلیف ہوئی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشُّرْبِ والْمُسَاقَاةِ: 2375]

تخریج الحدیث:
یہ روایت صحیح بخاری میں پانچ مقامات پر موجود ہے:
[2089، 2375، 3091، 4003، 5793 مختصراً ومطولاً]
صحیح بخاری کے علاوہ یہ روایت درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
صحيح مسلم [1979 وترقيم دارالسلام: 5127۔ 5130]
صحيح ابن حبان [الاحسان 7؍34 ح4519 دوسرا نسخه: 4536]
صحيح ابي عوانه [5؍248، 249، 250، 251، 252]
وسنن ابي داود [2986]
والسنن الكبريٰ للبيهقي [6؍153، 341، 342]
ومسند ابي يعليٰ [547]
امام بخاری رحمہ اللہ سے پہلے یہ حدیث امام أحمد رحمہ اللہ نے بیان کی ہے۔ دیکھئیے
مسند أحمد بن حنبل [1؍142 ح1200]
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ روایت صحیح ثابت اور مشہور ہے۔
اس سلسلے میں چند اہم معلومات درج ذیل ہیں:
① یہ واقعہ غزوہ احد 3ھ سے پہلے اور غزوہ بدر 2ھ کے بعد کا ہے۔
② شراب (خمر) کی حرمت کا حکم 6ھ یا 7ھ میں نازل ہوا۔ اس سے پہلے شراب حرام نہیں تھی۔
③ اس حدیث میں ذکر کردہ دور میں گانے والی لونڈیوں کا گانا حرام نہیں ہوا تھا۔ یاد رہے کہ اس روایت میں موسیقی کے آلات کا ذکر نہیں بلکہ صرف لونڈی کا (آواز سے) گانا مذکور ہے۔ گانے بجانے کی حرمت دوسری احادیث سے ثابت ہوتی ہے۔ مثلاً ديكهئے: [صحيح بخاري: 5590]
لہٰذا اس روایت سے گانے بجانے کے جواز پر استدلال کرنا منسوخ ہے۔
④ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہما سے نا کا صدور بھی ثابت ہے ديكهئے: [صحيح بخاري: 6820 وصحيح مسلم: 1691]
⑤ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بخشے ہوئے اور جنتی ہیں۔
❀ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«اطلع الله على أهل بدر فقال: اعملوا ما شئتم، فقد غفرت لكم»
بدری صحابیوں کے سامنے اللہ ظاہر ہوا اور فرمایا جو چاہو کرو، میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔ [مسند أحمد 2؍295 ح7940 وسنده حسن]
سیدنا امیر حمزہ البدری رضی اللہ عنہ کا یہ عمل نشے کی وجہ سے تھا، انہیں اللہ نے بخش دیا اور جنت الفردوس میں داخل کر دیا ہے، لہٰذا منکرین حدیث کا یہ کہنا کہ صحابہ کا یہ کردار خلاف قرآن سمجھا جائے گا۔ مردود ہے کیونکہ یہ واقعہ حرمت خمر سے پہلے کا ہے۔
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث/صفحہ نمبر: 24   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2986  
´خمس کے مصارف اور قرابت داروں کو حصہ دینے کا بیان۔`
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے پاس ایک زیادہ عمر والی اونٹنی تھی جو مجھے بدر کے دن مال غنیمت کی تقسیم میں ملی تھی اور اسی دن مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور بہت عمر والی اونٹنی مال خمس میں سے عنایت فرمائی تھی تو جب میں نے ارادہ کیا کہ میں فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر لاؤں، تو میں نے بنو قینقاع کے ایک سنار سے وعدہ لے لیا کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم دونوں جا کر اذخر (ایک خوشبودار گھاس ہے) لائیں میرا ارادہ یہ تھا کہ میں اسے سناروں سے بیچ کر اپنے ولیمہ کی تیاری میں اس سے مدد لوں، اسی دوران ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2986]
فوائد ومسائل:

یہ واقعہ شراب کی حرمت نازل ہونے سے پہلے کا ہے۔
اور اس گانے والی کے شعر یوں تھے۔
ترجمہ۔
اے حمزہ اٹھو۔
اور یہ موٹی موٹی اونٹنیاں جو میدان میں بندھی ہیں۔
ان کے حلقوں پرچھری رکھو۔
اور انہیں خونم خون کردو۔
اور ان کا عمدہ عمدہ گوشت پکا ہوا یا بھنا ہوا اپنے شراب پینے والے ساتھوں کوپیش کرو ان اشعار کا مقصد حمزہ کے جزبہ سخاوت کو غلط طریق پر ابھارنا تھا۔
حضرت حمزہ نے ان کے اکسانے پر اپنے بھتیجے کی پونجی جو اونٹوں پر مشتمل تھی۔
برباد کر ڈالی۔


اہل بیت کےافراد کو جہاد میں سے غنیمت کا حصہ ملتا تھا۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسب ضرورت خمس سے مذید بھی عنایت فرمایا کرتے تھے۔


صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے افراد محنت مزدوری اور مشقت سے اپنے اخراجات پورے کیا کرتے تھے۔


انسان کسی وجہ سے عقل وشعورسے عاری ہوجائے تو خاص اس حالت میں تادیب مفید نہیں ہوسکتی۔
بلکہ اس سے دور جانا ہی بہتر ہوتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2986   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5127  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
شَارِف ج شَرِف:
عمر رسیدہ اونٹنی۔
(2)
قَيْنَةٌ:
گلوکارہ،
گانےوالی لونڈی۔
(3)
النِّوَاءِ:
ناوية کی جمع ہےفربہ۔
(4)
لِلشُّرُفِ النِّوَاءِ «‏‏‏‏فربہ،
موٹی،
عمر رسیدہ اونٹنیاں۔
(5)
ثَارَ إِلَيْهِا:
ان پر جھپٹے۔
(6)
جَبَّ «‏‏‏‏کاٹا۔
(7)
أَسْنِمَة:
سنام کی جمع ہے کوہان۔
(8)
بَقَرَ:
نحرکیا،
پھاڑا۔
(9)
خَوَاصِر:
خاصرة کی جمع ہے،
کوکھ۔
(10)
أَكْبَادِ،
كبد:
کلیجہ،
جگر۔
(11)
أَفْظَعَنِي:
رمجھے مصیبت وپریشانی میں ڈال دیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5127