صحيح مسلم
كِتَاب الْأَشْرِبَةِ -- مشروبات کا بیان
1. باب تَحْرِيمِ الْخَمْرِ وَبَيَانِ أَنَّهَا تَكُونُ مِنْ عَصِيرِ الْعِنَبِ وَمِنَ التَّمْرِ وَالْبُسْرِ وَالزَّبِيبِ وَغَيْرِهَا مِمَّا يُسْكِرُ:
باب: خمر کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 5129
وحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ ، أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ كَثِيرِ بْنِ عُفَيْرٍ أَبُو عُثْمَانَ الْمِصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ ، أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَلِيًّا ، قَالَ: " كَانَتْ لِي شَارِفٌ مِنْ نَصِيبِي مِنَ الْمَغْنَمِ يَوْمَ بَدْرٍ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَانِي شَارِفًا مِنَ الْخُمُسِ يَوْمَئِذٍ، فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَبْتَنِيَ بِفَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاعَدْتُ رَجُلًا صَوَّاغًا مِنْ بَنِي قَيْنُقَاعَ يَرْتَحِلُ مَعِيَ، فَنَأْتِي بِإِذْخِرٍ أَرَدْتُ أَنْ أَبِيعَهُ مِنَ الصَّوَّاغِينَ، فَأَسْتَعِينَ بِهِ فِي وَلِيمَةِ عُرْسِي، فَبَيْنَا أَنَا أَجْمَعُ لِشَارِفَيَّ مَتَاعًا مِنَ الْأَقْتَابِ وَالْغَرَائِرِ وَالْحِبَالِ وَشَارِفَايَ مُنَاخَانِ إِلَى جَنْبِ حُجْرَةِ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ وَجَمَعْتُ حِينَ جَمَعْتُ مَا جَمَعْتُ، فَإِذَا شَارِفَايَ قَدِ اجْتُبَّتْ أَسْنِمَتُهُمَا وَبُقِرَتْ خَوَاصِرُهُمَا وَأُخِذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا، فَلَمْ أَمْلِكْ عَيْنَيَّ حِينَ رَأَيْتُ ذَلِكَ الْمَنْظَرَ مِنْهُمَا، قُلْتُ: مَنْ فَعَلَ هَذَا؟، قَالُوا: فَعَلَهُ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَهُوَ فِي هَذَا الْبَيْتِ فِي شَرْبٍ مِنْ الْأَنْصَارِ غَنَّتْهُ قَيْنَةٌ وَأَصْحَابَهُ، فَقَالَتْ فِي غِنَائِهَا: أَلَا يَا حَمْزُ لِلشُّرُفِ النِّوَاءِ؟، فَقَامَ حَمْزَةُ بِالسَّيْفِ فَاجْتَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا، فَأَخَذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا، فَقَالَ عَلِيٌّ: فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ، قَالَ: فَعَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجْهِيَ الَّذِي لَقِيتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا لَكَ؟، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ قَطُّ عَدَا حَمْزَةُ عَلَى نَاقَتَيَّ فَاجْتَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا وَهَهُوَ ذَا فِي بَيْتٍ مَعَهُ شَرْبٌ، قَالَ فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرِدَائِهِ فَارْتَدَاهُ ثُمَّ انْطَلَقَ يَمْشِي وَاتَّبَعْتُهُ أَنَا وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ حَتَّى جَاءَ الْبَابَ الَّذِي فِيهِ حَمْزَةُ، فَاسْتَأْذَنَ فَأَذِنُوا لَهُ، فَإِذَا هُمْ شَرْبٌ فَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلُومُ حَمْزَةَ فِيمَا فَعَلَ، فَإِذَا حَمْزَةُ مُحْمَرَّةٌ عَيْنَاهُ، فَنَظَرَ حَمْزَةُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ إِلَى رُكْبَتَيْهِ ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَى سُرَّتِهِ ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَى وَجْهِهِ، فَقَالَ حَمْزَةُ: وَهَلْ أَنْتُمْ إِلَّا عَبِيدٌ لِأَبِي، فَعَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ ثَمِلٌ، فَنَكَصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَقِبَيْهِ الْقَهْقَرَى وَخَرَجَ وَخَرَجْنَا مَعَهُ ".
۔ عبد اللہ بن وہب نے کہا: مجھے یو نس بن یزید نے ابن شہاب سے حدیث بیان کی، کہا: مجھے علی بن حسین بن علی نے بتا یا کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہ نے انھیں خبر دی کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے بدر کے دن مال غنیمت میں ایک اونٹنی ملی اور اسی دن ایک اونٹنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خمس میں سے اور دی۔ پھر جب میں نے چاہا کہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا سے شادی کروں جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں تو میں نے بنی قینقاع کے ایک سنار سے وعدہ کیا کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم دونوں مل کر اذخر لائیں اور سناروں کے ہاتھ بیچیں اور اس سے میں اپنی شادی کا ولیمہ کروں۔ میں اپنی دونوں اونٹنیوں کا سامان پالان، رکابیں اور رسیاں وغیرہ اکٹھا کر رہا تھا اور وہ دونوں اونٹنیاں ایک انصاری کی کوٹھری کے بازو میں بیٹھی تھیں۔ جس وقت میں یہ سامان جو اکٹھا کر رہا تھا اکٹھا کر کے لوٹا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دونوں اونٹنیوں کے کوہان کٹے ہوئے ہیں، ان کی کوکھیں پھٹی ہوئی ہیں اور ان کے جگر نکال لئے گئے۔ مجھ سے یہ دیکھ کر نہ رہا گیا اور میری آنکھیں تھم نہ سکیں (یعنی میں رونے لگا یہ رونا دنیا کے طمع سے نہ تھا بلکہ سیدہ فاطمۃالزہراء اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں جو تقصیر ہوئی، اس خیال سے تھا) میں نے پوچھا کہ یہ کس نے کیا؟ لوگوں نے کہا کہ حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب نے اور وہ اس گھر میں انصار کی ایک جماعت کے ساتھ ہیں جو شراب پی رہے ہیں، ان کے سامنے اور ان کے ساتھیوں کے سامنے ایک گانے والی نے گانا گایا تو گانے میں یہ کہا کہ اے حمزہ اٹھ ان موٹی اونٹنیوں کو اسی وقت لے۔ حمزہ رضی اللہ عنہ تلوار لے کر اٹھے اور ان کے کوہان کاٹ لئے اور کوکھیں پھاڑ ڈالیں اور جگر (کلیجہ) نکال لیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ سن کر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، وہاں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بیٹھے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھتے ہی میرے چہرے سے رنج و مصیبت کو پہچان لیا اور فرمایا کہ تجھ کو کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! آج کا سا دن میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ حمزہ رضی اللہ عنہ نے میری دونوں اونٹنیوں پر ظلم کیا، ان کے کوہان کاٹ لئے، کوکھیں پھاڑ ڈالیں اور وہ اس گھر میں چند شرابیوں کے ساتھ ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر منگوا کر اوڑھی اور پھر پیدل چلے، میں اور زید بن حارثہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دروازے پر آئے جہاں حمزہ رضی اللہ عنہ تھے اور اندر آنے کی اجازت مانگی۔ لوگوں نے اجازت دی۔ دیکھا تو وہ شراب پئے ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو اس کام پر ملامت شروع کی اور سیدنا حمزہ کی آنکھیں (نشے کی وجہ سے) سرخ تھیں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، پھر آپ رضی اللہ عنہ کے گھٹنوں کو دیکھا، پھر نگاہ بلند کی تو ناف کو دیکھا۔ پھر نگاہ بلند کی تو منہ کو دیکھا اور (نشے میں دھت ہونے کی وجہ سے) کہا کہ تم تو میرے باپ دادوں کے غلام ہو۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہچانا کہ وہ نشہ میں مست ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم الٹے پاؤں پھرے اور باہر نکلے۔ ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ بدر کے دن غنیمت میں میرے حصہ ایک عمر رسیدہ اونٹنی آئی اور ایک عمر رسیدہ اونٹنی اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خمس (پانچواں حصہ) میں سے عنایت فرمائی، تو جب میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر کی رخصتی کا ارادہ کیا، یا شب زفاف گزارنے کا ارادہ کیا، میں نے بنو قینقاع کے ایک کاریگر (سنار) سے اپنے ساتھ جانے کا وعدہ لیا، تاکہ ہم اذخر گھاس لائیں، میں نے چاہا، اس کو زرگروں سے بیچ کر اپنی دلہن کے ولیمہ کی تیاری کروں گا، اس دوران کہ میں اپنی دونوں اونٹنیوں کے لیے سامان پالان، بورے اور رسیاں اکٹھی کر رہا تھا اور دونوں اونٹنیاں ایک انصاری آدمی کے کمرہ کے پہلو میں بٹھائی ہوئی تھیں، جب میں نے جو سامان جمع کرنا تھا، جمع کر لیا، تو میں اچانک دیکھتا ہوں، میری دونوں اونٹنیوں کے کوہان کاٹے جا چکے ہیں اور ان کی کوکھیں چاک کی جا چکی ہیں اور ان کے کلیجے نکال لئے گئے ہیں، جب میں نے ان کا یہ نظارہ دیکھا تو میں اپنی آنکھوں پر قابو نہ رکھ سکا، (رو دیا) میں نے پوچھا یہ حرکت کس نے کی ہے؟ لوگوں نے بتایا، یہ کام حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالی عنہ نے کیا ہے اور وہ اس گھر میں ایک انصاری شرابی ٹولی کے ساتھ موجود ہے، ایک مغنیہ نے اسے اور ان کے ساتھیوں کو شعر سنائے، شعر پڑھتے ہوئے کہنے لگی، خبردار! اے حمزہ، فربہ اونٹنیوں پر پل پڑو، تو حضرت حمزہ تلوار لے کر اٹھے، ان کے کوہان کاٹ لیے، ان کی کوکھیں چاک کر کے، ان کے جگر نکال لیے، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں چل پڑا حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا، زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی آپ کے پاس تھے، تو عرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر جو گزرا میرے چہرے سے جان لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا؟ میں نے کہا، اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! آج جیسا منظر میں نے کبھی نہیں دیکھا، حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ میری دونوں اونٹنیوں پر حملہ آور ہوئے، ان کی کوہانیں کاٹ لیں اور ان کی کوکھیں پھاڑ ڈالیں اور وہ ایک گھر میں، ان کے ساتھ شرابی ٹولی ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر منگوا کر اوڑھی پھر پیدل روانہ ہو گئے، میں اور زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ آپ کے پیچھے پیچھے ہو لیے، حتیٰ کہ اس دروازہ پر پہنچ گئے جس کے گھر میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ تھے، اجازت طلب فرمائی، گھر والوں نے اجازت دے دی اور وہ شرابی ٹولی نکلی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کی کرتوت پر ملامت کرنے لگے اور حمزہ کی آنکھیں سرخ ہو چکیں تھیں، تو حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، پھر نظر آپ کے گھٹنوں تک اٹھائی، پھر نظر اٹھا کر آپ کی ناف پر نظر ڈالی، پھر نظر اٹھائی اور آپ کے چہرے کو دیکھا اور حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، تم میرے باپ کے غلام ہی تو ہو نا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ گئے، وہ نشہ میں ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الٹے پاؤں، اپنی ایڑیوں پر لوٹ آئے، گھر سے نکل گئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ نکل آئے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2375  
´بدری صحابیوں کی فضیلت `
«. . . فَأَنَخْتُهُمَا يَوْمًا عِنْدَ بَابِ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَحْمِلَ عَلَيْهِمَا إِذْخِرًا لِأَبِيعَهُ، وَمَعِي صَائِغٌ مِنْ بَنِي قَيْنُقَاعَ فَأَسْتَعِينَ بِهِ عَلَى وَلِيمَةِ فَاطِمَةَ، وَحَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ المُطَّلِبِ يَشْرَبُ فِي ذَلِكَ الْبَيْتِ مَعَهُ قَيْنَةٌ، فَقَالَتْ: أَلَا يَا حَمْزُ لِلشُّرُفِ النِّوَاءِ، فَثَارَ إِلَيْهِمَا حَمْزَةُ بِالسَّيْفِ، فَجَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا، ثُمَّ أَخَذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا، قُلْتُ لِابْنِ شِهَابٍ: وَمِنَ السَّنَامِ، قَالَ: قَدْ جَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا فَذَهَبَ بِهَا. . .»
حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ اسی (انصاری کے) گھر میں شراب پی رہے تھے۔ ان کے ساتھ ایک گانے والی بھی تھی۔ اس نے جب یہ مصرعہ پڑھا: ہاں: اے حمزہ! اٹھو، فربہ جوان اونٹنیوں کی طرف (بڑھ) حمزہ رضی اللہ عنہ جوش میں تلوار لے کر اٹھے اور دونوں اونٹنیوں کے کوہان چیر دیئے۔ ان کے پیٹ پھاڑ ڈالے۔ اور ان کی کلیجی نکال لی (ابن جریج نے بیان کیا کہ) میں نے ابن شہاب سے پوچھا، کیا کوہان کا گوشت بھی کاٹ لیا تھا۔ تو انہوں نے بیان کیا کہ ان دونوں کے کوہان کاٹ لیے اور انہیں لے گئے۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، مجھے یہ دیکھ کر بڑی تکلیف ہوئی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشُّرْبِ والْمُسَاقَاةِ: 2375]

تخریج الحدیث:
یہ روایت صحیح بخاری میں پانچ مقامات پر موجود ہے:
[2089، 2375، 3091، 4003، 5793 مختصراً ومطولاً]
صحیح بخاری کے علاوہ یہ روایت درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
صحيح مسلم [1979 وترقيم دارالسلام: 5127۔ 5130]
صحيح ابن حبان [الاحسان 7؍34 ح4519 دوسرا نسخه: 4536]
صحيح ابي عوانه [5؍248، 249، 250، 251، 252]
وسنن ابي داود [2986]
والسنن الكبريٰ للبيهقي [6؍153، 341، 342]
ومسند ابي يعليٰ [547]
امام بخاری رحمہ اللہ سے پہلے یہ حدیث امام أحمد رحمہ اللہ نے بیان کی ہے۔ دیکھئیے
مسند أحمد بن حنبل [1؍142 ح1200]
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ روایت صحیح ثابت اور مشہور ہے۔
اس سلسلے میں چند اہم معلومات درج ذیل ہیں:
① یہ واقعہ غزوہ احد 3ھ سے پہلے اور غزوہ بدر 2ھ کے بعد کا ہے۔
② شراب (خمر) کی حرمت کا حکم 6ھ یا 7ھ میں نازل ہوا۔ اس سے پہلے شراب حرام نہیں تھی۔
③ اس حدیث میں ذکر کردہ دور میں گانے والی لونڈیوں کا گانا حرام نہیں ہوا تھا۔ یاد رہے کہ اس روایت میں موسیقی کے آلات کا ذکر نہیں بلکہ صرف لونڈی کا (آواز سے) گانا مذکور ہے۔ گانے بجانے کی حرمت دوسری احادیث سے ثابت ہوتی ہے۔ مثلاً ديكهئے: [صحيح بخاري: 5590]
لہٰذا اس روایت سے گانے بجانے کے جواز پر استدلال کرنا منسوخ ہے۔
④ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہما سے نا کا صدور بھی ثابت ہے ديكهئے: [صحيح بخاري: 6820 وصحيح مسلم: 1691]
⑤ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بخشے ہوئے اور جنتی ہیں۔
❀ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«اطلع الله على أهل بدر فقال: اعملوا ما شئتم، فقد غفرت لكم»
بدری صحابیوں کے سامنے اللہ ظاہر ہوا اور فرمایا جو چاہو کرو، میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔ [مسند أحمد 2؍295 ح7940 وسنده حسن]
سیدنا امیر حمزہ البدری رضی اللہ عنہ کا یہ عمل نشے کی وجہ سے تھا، انہیں اللہ نے بخش دیا اور جنت الفردوس میں داخل کر دیا ہے، لہٰذا منکرین حدیث کا یہ کہنا کہ صحابہ کا یہ کردار خلاف قرآن سمجھا جائے گا۔ مردود ہے کیونکہ یہ واقعہ حرمت خمر سے پہلے کا ہے۔
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث/صفحہ نمبر: 24   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2986  
´خمس کے مصارف اور قرابت داروں کو حصہ دینے کا بیان۔`
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے پاس ایک زیادہ عمر والی اونٹنی تھی جو مجھے بدر کے دن مال غنیمت کی تقسیم میں ملی تھی اور اسی دن مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور بہت عمر والی اونٹنی مال خمس میں سے عنایت فرمائی تھی تو جب میں نے ارادہ کیا کہ میں فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر لاؤں، تو میں نے بنو قینقاع کے ایک سنار سے وعدہ لے لیا کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم دونوں جا کر اذخر (ایک خوشبودار گھاس ہے) لائیں میرا ارادہ یہ تھا کہ میں اسے سناروں سے بیچ کر اپنے ولیمہ کی تیاری میں اس سے مدد لوں، اسی دوران ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2986]
فوائد ومسائل:

یہ واقعہ شراب کی حرمت نازل ہونے سے پہلے کا ہے۔
اور اس گانے والی کے شعر یوں تھے۔
ترجمہ۔
اے حمزہ اٹھو۔
اور یہ موٹی موٹی اونٹنیاں جو میدان میں بندھی ہیں۔
ان کے حلقوں پرچھری رکھو۔
اور انہیں خونم خون کردو۔
اور ان کا عمدہ عمدہ گوشت پکا ہوا یا بھنا ہوا اپنے شراب پینے والے ساتھوں کوپیش کرو ان اشعار کا مقصد حمزہ کے جزبہ سخاوت کو غلط طریق پر ابھارنا تھا۔
حضرت حمزہ نے ان کے اکسانے پر اپنے بھتیجے کی پونجی جو اونٹوں پر مشتمل تھی۔
برباد کر ڈالی۔


اہل بیت کےافراد کو جہاد میں سے غنیمت کا حصہ ملتا تھا۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسب ضرورت خمس سے مذید بھی عنایت فرمایا کرتے تھے۔


صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے افراد محنت مزدوری اور مشقت سے اپنے اخراجات پورے کیا کرتے تھے۔


انسان کسی وجہ سے عقل وشعورسے عاری ہوجائے تو خاص اس حالت میں تادیب مفید نہیں ہوسکتی۔
بلکہ اس سے دور جانا ہی بہتر ہوتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2986   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5129  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
شرب:
شارب کی جمع ہے،
شرابی پارٹی کوکہتے ہیں۔
(2)
يقهقر:
الٹے پاؤں لوٹنے لگے اورنكص علي عقبيه کا بھی یہی مفہوم ہے۔
(3)
ثمل:
نشہ میں مبتلا،
نشئی۔
(4)
اقتاب:
قتب پالان۔
(5)
غرائر:
غرارہ بورے۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے کئی باتیں ثابت ہوتی ہیں،
(1)
انسان محنت و مزدوری کرتے ہوئے گھاس کاٹ کر بیچ سکتا ہے اور کسی کام میں کافر سے تعاون لے سکتا ہے۔
(2)
نشہ کی حالت میں انسان کو پتہ نہیں چلتا،
میں کیا کہہ رہا ہوں اور کسے کہہ رہا ہوں،
مجھے یہ کہنا چاہیے یا نہیں۔
(3)
مظلوم اپنی داستان سنا سکتا ہے اور اس کی فریاد رسی کرنا چاہیے۔
(4)
انسان اپنے گھر میں اوپر والی چادر اتار سکتا ہے اور اگر کہیں جانا ہو تو پھر مکمل لباس میں جانا چاہیے۔
(5)
بڑا انسان بھی کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لے گا اور اس کو اجازت اس کے سب ساتھ والوں کے لیے ہو گی۔
(6)
انسان جب اندوہناک منظر دیکھتا ہے،
تو اس پر آنسو بہا سکتا ہے۔
(7)
انسان جب شراب پی لیتا ہے،
تو نشہ میں دھت ہو کر دوسروں کو نقصان پہنچاتا ہے اور چھوٹے بڑے کی تمیز سے محروم ہو جاتا ہے،
اس لیے شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
(8)
انسان کو خطرہ کے وقت اپنا تحفظ کرنا چاہیے،
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم واپس مڑنے کی بجائے الٹے پاؤں واپس لوٹے ہیں،
کہ شراب میں دھت حمزہ کوئی غلط اقدام ہی نہ کر بیٹھے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5129