صحيح مسلم
كِتَاب الْأَشْرِبَةِ -- مشروبات کا بیان
10. باب جَوَازِ شُرْبِ اللَّبَنِ:
باب: دودھ پینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5239
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ ، يَقُولَ: لَمَّا أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَأَتْبَعَهُ سُراقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ، قَالَ: فَدَعَا عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَاخَتْ فَرَسُهُ، فَقَالَ: ادْعُ اللَّهَ لِي وَلَا أَضُرُّكَ، قَالَ: فَدَعَا اللَّهَ، قَالَ: فَعَطِشَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَرُّوا بِرَاعِي غَنَمٍ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ : " فَأَخَذْتُ قَدَحًا فَحَلَبْتُ فِيهِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كُثْبَةً مِنْ لَبَنٍ فَأَتَيْتُهُ بِهِ فَشَرِبَ حَتَّى رَضِيتُ ".
محمد بن جعفر نے کہا: ہمیں شعبہ نے حدیث بیان کی، کہا: میں نے ابو اسحاق ہمدانی سے سنا، کہہ رہے تھے: میں نے حضرت براء رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئےسنا: کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ کو آئے تو سراقہ بن مالک نے (مشرکوں کی طرف سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیچھا کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے بددعا کی تو اس کا گھوڑا (زمین میں) دھنس گیا (یعنی زمین نے اس کو پکڑ لیا)۔ وہ بولا کہ آپ میرے لئے دعا کیجئے میں آپ کو نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے دعا کی (تو اس کو نجات ملی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیاس لگی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکریوں کے چرواہے کے قریب سے گزرے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے پیالہ لیا اور تھوڑا سا دودھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دوہا اور لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ رضی اللہ عنہ نے پیا، یہاں تک کہ میں خوش ہو گیا۔
حضرت براء رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ کی طرف متوجہ ہوئے، تو سراقہ بن مالک بن جعشم نے آپ کا تعاقب کیا، آپ نے اس کے لیے بددعا کی تو اس کی گھوڑی زمین میں دھنس گئی، اس نے درخواست کی، آپصلی اللہ علیہ وسلم میرے حق میں دعا فرمائیں میں آپ کو نقصان نہیں پہنچاؤں گا، تو آپ نے اس کے حق میں اللہ سے دعا فرمائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیاس لگی تو ان کا گزر بکریوں کے چرواہے کے پاس سے ہوا، ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا، میں نے ایک پیالہ لیا اور اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھوڑا سا دودھ دوہا اور اسے آپ کی خدمت میں پیش کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پیا کہ میں آپ کے پینے سے مطمئن ہو گیا۔
  صحيح مسلم مختصر مع شرح نووي: تحت الحديث صحيح مسلم 7521  
´حربی کا مال`
. . . میں مدینہ والوں میں سے ایک شخص کا غلام ہوں (مراد مدینہ سے شہر ہے یعنی مکہ والوں میں سے) میں نے کہا: تیری بکریوں میں دودھ ہے؟ وہ بولا: ہاں ہے۔ میں نے کہا: تو دودھ دوہئے گا ہم کو؟ وہ بولا: ہاں۔ پھر اس نے ایک بکری کو پکڑا، میں نے کہا: اس کا تھن صاف کر لے بالوں اور مٹی اور کوڑے سے تا کہ دودھ میں یہ چیزیں نہ پڑیں۔ (راوی نے کہا:) میں نے سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارتے تھے، جھاڑتے تھے۔ خیر اس لڑکے نے دودھ دوھا لکڑی کے ایک پیالہ میں تھوڑا دودھ اور میرے ساتھ ایک ڈول تھا جس میں پانی رکھتا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پینے اور وضو کرنے کے لیے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں رسول اللہ کے پاس آیا اور مجھے برا معلوم ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند سے جگانا لیکن میں نے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بخود جاگ اٹھے ہیں۔ میں نے دودھ پر پانی ڈالا یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا۔ پھر میں نے کہا: یا رسول اللہ! یہ دودھ پیجئیے . . . [صحيح مسلم/كِتَاب الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ: 7521]

تشریح:
نووی رحمہ اللہ نے کہا: یہ جو آپ نے اس لڑکے کے ہاتھ سے دودھ پیا حالانکہ وہ اس دودھ کا مالک نہ تھا اس کی چار توجیہیں کی ہیں ایک یہ کہ مالک کی طرف سے مسافروں اور مہمانوں کو پلانے کی اجازت تھی۔ دوسرے یہ کہ وہ جانور کسی دوست کے ہوں گے جس کے مال میں تصرف کر سکتے ہوں گے۔ تیسرے یہ کہ وہ حربی کا مال تھا جس کو امان نہیں ملی اور ایسا مال لینا جائز ہے۔ چوتھے یہ کہ وہ مضطر تھے۔ اول کی دو توجیہیں عمدہ ہیں۔
   مختصر شرح نووی، حدیث/صفحہ نمبر: 7521   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5239  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
ساخت فرسه:
اس کی گھوڑی کی ٹانگیں سخت زمین میں دھنس گئیں۔
فوائد ومسائل:
یہ سفر ہجرت کا واقعہ ہے،
جس سے معلوم ہوتا ہے اللہ اپنے بندوں کی دشمنوں سے کس طرح حفاظت فرماتا ہے اور ان سے کسی قسم کے حیرت انگیز امور کا صدور ہوتا ہے،
لیکن اس سے یہ استدلال کرنا کہ اب بھی مصیبت و تکلیف کے وقت ان سے دعا اور امداد کی درخواست کی جا سکتی ہے،
غلط بات ہے،
کیونکہ اس وقت آپ اس کے سامنے موجود تھے اور وہ آپ کو دیکھ رہا تھا اور اب یہ صورتحال ہے،
ہاں کسی زندہ نیک آدمی کے پاس جا کر اس سے دعا کی درخواست کی جا سکتی ہے،
نیز اگر زمین آپﷺ کے تابع فرمان تھی تو پھر اللہ سے دعا کرنے کی ضرورت کیا تھی،
آپ براہ راست زمین کو حکم صادر فرماتے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5239