صحيح مسلم
كِتَاب الْأَشْرِبَةِ -- مشروبات کا بیان
31. باب إِبَاحَةِ أَكْلِ الثُّومِ وَأَنَّهُ يَنْبَغِي لِمَنْ أَرَادَ خِطَابِ الْكِبَارِ تَرْكُهُ وَكَذَا مَا فِي مَعْنَاهُ:
باب: لہسن کھانا درست ہے۔
حدیث نمبر: 5356
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أُتِيَ بِطَعَامٍ أَكَلَ مِنْهُ، وَبَعَثَ بِفَضْلِهِ إِلَيَّ وَإِنَّهُ بَعَثَ إِلَيَّ يَوْمًا بِفَضْلَةٍ لَمْ يَأْكُلْ مِنْهَا، لِأَنَّ فِيهَا ثُومًا فَسَأَلْتُهُ أَحَرَامٌ هُوَ؟، قَالَ: " لَا وَلَكِنِّي أَكْرَهُهُ مِنْ أَجْلِ رِيحِهِ "، قَالَ: فَإِنِّي أَكْرَهُ مَا كَرِهْتَ.
محمد بن جعفر نے کہا: ہمیں شعبہ نے سماک بن حرب سے حدیث بیان کی، انھوں نے جا بر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے انھوں نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی کھا نا لا یا جا تا تو آپ اس میں سے تناول فرماتے اور جو بچ جا تا اسے میرے پاس بھیج دیتے ایک دن آپ نے میرے پاس بچا ہوا کھا نا بھیجا جس میں سے آپ نے خود کچھ نہیں کھا یا تھا کیونکہ اس میں (کچا) لہسن تھا میں نے آپ سے پو چھا: کیا یہ حرام ہے؟ آپ نے فرما یا: "نہیں لیکن میں اس کی بد بو کی وجہ سے اسے ناپسند کرتا ہوں۔"میں نے عرض کی: جو آپ کو ناپسند ہے وہ مجھے بھی ناپسند ہے۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی کھانا لایا جاتا، آپ اس سے کھا لیتے اور اس کا بچا ہوا حصہ میری طرف بھیج دیتے اور آپ نے ایک دن مجھے بچا ہوا کھانا بھیجا، جس سے آپصلی اللہ علیہ وسلم نے کھایا نہیں تھا، کیونکہ اس میں لہسن تھا تو میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا وہ حرام ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، لیکن میں اسے اس کی بو کی وجہ سے ناپسند کرتا ہوں میں نے کہا: جو آپ کو ناپسند ہے مجھے بھی ناپسند ہے۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5356  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
کچا لہسن کھانا پسندیدہ نہیں ہے،
کیونکہ اس میں بو ہوتی ہے،
لیکن اگر اس کو اچھی طرح پکا کر اس کی بو ختم کر دی جائے تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے،
کچا لہسن کھا کر مسجد میں یا مجلس میں آنا درست نہیں ہے اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے،
اگر کھانا بھیجنے والا زیادہ کھانا بھیج دے یا کوئی دوسرا اس میں سے کچھ کھانے کا خواہش مند ہو تو اس کا کچھ حصہ چھوڑ دینا چاہیے،
کیونکہ اس حدیث میں اس دور کی صورت حال بیان کی گئی،
جب آپ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5356