صحيح مسلم
كِتَاب الْأَشْرِبَةِ -- مشروبات کا بیان
34. باب الْمُؤْمِنُ يَأْكُلُ فِي مِعًى وَاحِدٍ وَالْكَافِرُ يَأْكُلُ فِي سَبْعَةِ أَمْعَاءٍ:
باب: مؤمن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں۔
حدیث نمبر: 5374
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ الْبَاهِلِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ وَاقِدِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ نَافِعًا ، قَالَ: رَأَى ابْنُ عُمَرَ مِسْكِينًا، فَجَعَلَ يَضَعُ بَيْنَ يَدَيْهِ وَيَضَعُ بَيْنَ يَدَيْهِ، قَالَ: فَجَعَلَ يَأْكُلُ أَكْلًا كَثِيرًا، قَالَ: فَقَالَ: لَا يُدْخَلَنَّ هَذَا عَلَيَّ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ الْكَافِرَ يَأْكُلُ فِي سَبْعَةِ أَمْعَاءٍ ".
واقد بن محمد بن زید سے روایت ہے کہ انھوں نے نافع سے سنا، انھوں نے کہا: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مسکین کو دیکھا وہ اس کے سامنے کھا نا رکھتے رہے رکھتے رہے کہا: وہ شخص بہت زیادہ کھا نا کھا تا رہا انھوں (ابن عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا: آیندہ یہ شخص میرے ہاں نہ آئے کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرما تے ہوئے سنا، بلا شبہ کا فر سات آنتوں میں کھا تا ہے۔"
امام نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے ایک مسکین آدمی کو دیکھا اور اس کے سامنے کھانا رکھنے لگے، اس کے آگے رکھتے رہے اور وہ خوب کھانے لگا تو ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا: یہ میرے پاس بالکل نہ آئے، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے: کافر ہی سات آنتوں میں کھاتا ہے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1818  
´مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنت میں۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کافر سات آنت میں کھاتا ہے اور مومن ایک آنت میں کھاتا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأطعمة/حدیث: 1818]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
علماء نے اس کی مختلف توجیہیں کی ہیں:

(1)
مومن اللہ کانام لے کر کھانا شروع کرتا ہے،
اسی لیے کھانے کی مقدار اگر کم ہے تب بھی اسے آسودگی ہوجاتی ہے،
اور کافر چونکہ اللہ کا نام لیے بغیر کھاتا ہے اس لیے اسے آسودگی نہیں ہوتی،
خواہ کھانے کی مقدار زیادہ ہو یا کم۔

(2)
مومن دنیاوی حرص طمع سے اپنے آپ کو دور رکھتا ہے،
اسی لیے کم کھاتا ہے،
جب کہ کافر حصول دنیا کا حریص ہوتا ہے اسی لیے زیادہ کھاتا ہے۔

(3)
مومن آخرت کے خوف سے سر شار رہتا ہے اسی لیے وہ کم کھا کربھی آسودہ ہو جاتا ہے،
جب کہ کافر آخرت سے بے نیاز ہوکر زندگی گزارتا ہے،
اسی لیے وہ بے نیاز ہوکر کھاتا ہے،
پھر بھی آسودہ نہیں ہوتا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1818   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5374  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کھانے کے وقت کسی نہ کسی کو بلاتے تھے اور اس کو کھانے میں شریک کرتے تھے،
اس لیے جب اس مسکین میں کافروں والی خوب پیٹ بھر کر کھانے کی خصلت دیکھی تو کہا،
آئندہ اس کو میرے کھانے میں شرکت کے لیے نہ لایا جائے،
بخاری شریف کی روایت سے معلوم ہوتا ہے،
یہ آدمی ابونہیک آدمی بسیار خور تھا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5374