صحيح البخاري
كتاب العمل في الصلاة -- کتاب: نماز کے کام کے بارے میں
10. بَابُ مَا يَجُوزُ مِنَ الْعَمَلِ فِي الصَّلاَةِ:
باب: نماز میں کون کون سے کام درست ہیں؟
حدیث نمبر: 1210
حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَنَّهُ صَلَّى صَلَاةً , قَالَ:" إِنَّ الشَّيْطَانَ عَرَضَ لِي فَشَدَّ عَلَيَّ لِيَقْطَعَ الصَّلَاةَ عَلَيَّ فَأَمْكَنَنِي اللَّهُ مِنْهُ، فَذَعَتُّهُ وَلَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أُوثِقَهُ إِلَى سَارِيَةٍ حَتَّى تُصْبِحُوا فَتَنْظُرُوا إِلَيْهِ , فَذَكَرْتُ قَوْلَ سُلَيْمَانَ عَلَيْهِ السَّلَام: رَبِّ هَبْ لِي مُلْكًا لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي، فَرَدَّهُ اللَّهُ خَاسِيًا"، ثُمَّ قَالَ: النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ فَذَعَتُّهُ بِالذَّالِ أَيْ خَنَقْتُهُ وَفَدَعَّتُّهُ مِنْ قَوْلِ اللَّهِ: يَوْمَ يُدَعُّونَ سورة الطور آية 13 أَيْ يُدْفَعُونَ وَالصَّوَابُ فَدَعَتُّهُ إِلَّا أَنَّهُ كَذَا قَالَ بِتَشْدِيدِ الْعَيْنِ وَالتَّاءِ.
ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شبابہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ایک نماز پڑھی پھر فرمایا کہ میرے سامنے ایک شیطان آ گیا اور کوشش کرنے لگا کہ میری نماز توڑ دے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو میرے قابو میں کر دیا میں نے اس کا گلا گھونٹا یا اس کو دھکیل دیا۔ آخر میں میرا ارادہ ہوا کہ اسے مسجد کے ایک ستون سے باندھ دوں اور جب صبح ہو تو تم بھی دیکھو۔ لیکن مجھے سلیمان علیہ السلام کی دعا یاد آ گئی اے اللہ! مجھے ایسی سلطنت عطا کیجیو جو میرے بعد کسی اور کو نہ ملے (اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا) اور اللہ تعالیٰ نے اسے ذلت کے ساتھ بھگا دیا۔ اس کے بعد نضر بن شمیل نے کہا کہ «ذعته» ذال سے ہے۔ جس کے معنی ہیں کہ میں نے اس کا گلا گھونٹ دیا اور «دعته» اللہ تعالیٰ کے اس قول سے لیا گیا ہے۔ «يوم يدعون‏» جس کے معنی ہیں قیامت کے دن وہ دوزخ کی طرف دھکیلے جائیں گے۔ درست پہلا ہی لفظ ہے۔ البتہ شعبہ نے اسی طرح عین اور تاء کی تشدید کے ساتھ بیان کیا ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1210  
1210. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ایک دفعہ نماز پڑھی تو فرمایا: شیطان نے میرے سامنے آ کر مجھ پر حملہ کر دیا تاکہ میری نماز خراب کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے جب مجھے اس پر قدرت دی تو میں نے اسے گردن سے دبوچ لیا۔ میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ اسے ایک ستون کے ساتھ باندھ دوں تاکہ صبح تم لوگ بھی اسے دیکھ لو لیکن مجھے حضرت سلیمان ؑ کی دعا یاد آ گئی: (رب هب لي۔۔۔ بعدي) اے اللہ! مجھے ایسی بادشاہت عطا فر جو میرے بعد کسی کے لیے نہ ہو۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسے ناکام و بے مراد واپس کر دیا۔ پھر نضر بن شمیل نے کہا: یہ لفظ فذعته ذال کے ساتھ ہے، یعنی میں نے اس کا گلا گھونٹ دیا اور لفظ دعته اللہ کے اس قول سے ماخوذ ہے: (يَوْمَ يُدَعُّونَ) قیامت کے دن وہ دوزخ کی طرف دھکیل دیے جائیں گے۔ لیکن پہلا لفظ ہی درست ہے، البتہ راوی حدیث شعبہ نے اسے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1210]
حدیث حاشیہ:
یہاں یہ اعتراض نہ ہوگا کہ دوسری حدیث میں ہے کہ شیطان عمر کے سایہ سے بھی بھاگتا ہے۔
جب حضرت عمر ؓ سے شیطان ڈرتا ہے تو آنحضرت ﷺ کے پاس کیونکر آیا۔
آنحضرت ﷺ توحضرت عمر ؓ سے کہیں افضل ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ چورڈاکو بدمعاش کوتوال سے زیادہ ڈرتے ہیں بادشاہ سے اتنا نہیں ڈرتے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بادشاہ کو ہم پر رحم آجائے گا۔
تو اس سے یہ نہیں نکلتا کہ کوتوال بادشاہ سے افضل ہے۔
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا کہ دشمن کو دھکیلنا یا اس کو دھکا دینا اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔
امام ابن قیم ؒ نے کتاب الصلوة میں اہلحدیث کا مذہب قرار دیا کہ نماز میں کھنکارنا یا کوئی گھر میں نہ ہو تو دروازہ کھول دینا، سانپ بچھو نکلے تو اس کا مارنا، سلام کا جواب ہاتھ کے اشارے سے دینا، کسی ضرورت سے آگے پیچھے سرک جانا یہ سب کام درست ہیں۔
ان سے نمازفاسد نہیں ہوتی۔
(وحیدی)
بعض نسخوں میں ثم قال النضر بن شمیل والی عبارت نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1210   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1210  
1210. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ایک دفعہ نماز پڑھی تو فرمایا: شیطان نے میرے سامنے آ کر مجھ پر حملہ کر دیا تاکہ میری نماز خراب کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے جب مجھے اس پر قدرت دی تو میں نے اسے گردن سے دبوچ لیا۔ میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ اسے ایک ستون کے ساتھ باندھ دوں تاکہ صبح تم لوگ بھی اسے دیکھ لو لیکن مجھے حضرت سلیمان ؑ کی دعا یاد آ گئی: (رب هب لي۔۔۔ بعدي) اے اللہ! مجھے ایسی بادشاہت عطا فر جو میرے بعد کسی کے لیے نہ ہو۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسے ناکام و بے مراد واپس کر دیا۔ پھر نضر بن شمیل نے کہا: یہ لفظ فذعته ذال کے ساتھ ہے، یعنی میں نے اس کا گلا گھونٹ دیا اور لفظ دعته اللہ کے اس قول سے ماخوذ ہے: (يَوْمَ يُدَعُّونَ) قیامت کے دن وہ دوزخ کی طرف دھکیل دیے جائیں گے۔ لیکن پہلا لفظ ہی درست ہے، البتہ راوی حدیث شعبہ نے اسے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1210]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ شیطان حضرت عمرؓ کے سائے سے بھی دم دبا کر بھاگ جاتا ہے۔
جب شیطان حضرت عمر سے ڈرتا ہے تو نبیﷺ پر حملہ آور کیوں ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چور، ڈاکو اور بدمعاش پولیس سے زیادہ ڈرتے ہیں، لیکن حاکم وقت سے خوفزدہ نہیں ہوتے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ بادشاہ کو ہم پر رحم آ جائے گا۔
اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پولیس، بادشاہ سے زیادہ مقام رکھتی ہے۔

امام بخاریؒ نے اس سے یہ ثابت کیا ہے کہ دوران نماز میں دشمن کو دھکا دینا، اسے پکڑنا اس سے نماز خراب نہیں ہوتی۔
اسی طرح دوران نماز میں جوتیاں اتارنا، جمائی روکنا، بچے کا کمر پر سوار ہونا، تھوک کو جوتے سے ملنا، سانپ اور بچھو کو مارنا، تھوکنا، بچہ اٹھا کر نماز پڑھ، بہت زیادہ رونا اور پھنکارنا اس سے نماز خراب نہیں ہوتی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1210