صحيح البخاري
كتاب العمل في الصلاة -- کتاب: نماز کے کام کے بارے میں
11. بَابُ إِذَا انْفَلَتَتِ الدَّابَّةُ فِي الصَّلاَةِ:
باب: اگر آدمی نماز میں ہو اور اس کا جانور بھاگ پڑے۔
وَقَالَ قَتَادَةُ: إِنْ أُخِذَ ثَوْبُهُ يَتْبَعُ السَّارِقَ وَيَدَعُ الصَّلَاةَ.
اور قتادہ نے کہا کہ اگر کسی کا کپڑا چور لے بھاگے تو اس کے پیچھے دوڑے اور نماز چھوڑ دے۔
حدیث نمبر: 1211
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا الْأَزْرَقُ بْنُ قَيْسٍ قَالَ: كُنَّا بِالْأَهْوَازِ نُقَاتِلُ الْحَرُورِيَّةَ فَبَيْنَا أَنَا عَلَى جُرُفِ نَهَرٍ إِذَا رَجُلٌ يُصَلِّي وَإِذَا لِجَامُ دَابَّتِهِ بِيَدِهِ، فَجَعَلَتِ الدَّابَّةُ تُنَازِعُهُ وَجَعَلَ يَتْبَعُهَا، قَالَ شُعْبَةُ هُوَ أَبُو بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيُّ، فَجَعَلَ رَجُلٌ مِنْ الْخَوَارِجِ , يَقُولُ: اللَّهُمَّ افْعَلْ بِهَذَا الشَّيْخِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ الشَّيْخُ قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ قَوْلَكُمْ وَإِنِّي غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّ غَزَوَاتٍ أَوْ سَبْعَ غَزَوَاتٍ وَثَمَانِيَ وَشَهِدْتُ تَيْسِيرَهُ، وَإِنِّي إِنْ كُنْتُ أَنْ أُرَاجِعَ مَعَ دَابَّتِي أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَدَعَهَا تَرْجِعُ إِلَى مَأْلَفِهَا فَيَشُقُّ عَلَيَّ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ارزق بن قیس نے بیان کیا، کہا کہ ہم اہواز میں (جو کئی بستیاں ہیں بصرہ اور ایران کے بیچ میں) خارجیوں سے جنگ کر رہے تھے۔ ایک بار میں نہر کے کنارے بیٹھا تھا۔ اتنے میں ایک شخص (ابوبرزہ صحابی رضی اللہ عنہ) آیا اور نماز پڑھنے لگا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ان کے گھوڑے کی لگام ان کے ہاتھ میں ہے۔ اچانک گھوڑا ان سے چھوٹ کر بھاگنے لگا۔ تو وہ بھی اس کا پیچھا کرنے لگے۔ شعبہ نے کہا یہ ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ تھے۔ یہ دیکھ کر خوارج میں سے ایک شخص کہنے لگا کہ اے اللہ! اس شیخ کا ناس کر۔ جب وہ شیخ واپس لوٹے تو فرمایا کہ میں نے تمہاری باتیں سن لی ہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چھ یا سات یا آٹھ جہادوں میں شرکت کی ہے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آسانیوں کو دیکھا ہے۔ اس لیے مجھے یہ اچھا معلوم ہوا کہ اپنا گھوڑا ساتھ لے کر لوٹوں نہ کہ اس کو چھوڑ دوں وہ جہاں چاہے چل دے اور میں تکلیف اٹھاؤں۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1211  
1211. حضرت ازرق بن قیس سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم علاقہ اہواز میں خارجیوں سے مصروف جنگ تھے۔ میں نہر کے کنارے پر تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک آدمی اپنی سواری کی لگام ہاتھ میں تھامے نماز پڑھ رہا ہے۔ دریں اثنا اس کی سواری شوخی کرنے لگی تو وہ بھی اس کے پیچھے ہو لیا۔ شعبہ نے کہا: وہ شخص حضرت ابوبرزہ اسلمی ؓ تھے۔ انہیں دیکھ کر خارجیوں میں سے ایک آدمی نے کہا: اے اللہ! تو اس بوڑھے کو ایسا ایسا کر دے۔ جب شیخ محترم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: میں نے تمہاری بات سن لی ہے۔ دراصل میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ چھ سات یا آٹھ جنگوں میں شرکت کی ہے۔ میں نے لوگوں پر آپ کی طرف سے سہولت اور آسانی کو دیکھا ہے، اس لیے مجھے اپنی سواری کے ہمراہ رہنا اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ میں اسے چھوڑ دوں اور وہ اپنے اصبطل میں چلی جائے، پھر مجھے تکلیف ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1211]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ واقعہ 65 ہجری میں پیش آیا جبکہ خوارج نے نافع بن ازرق کی سرکردگی میں اہل بصرہ کا محاصرہ کر لیا تھا۔
حضرت ابو برزہ اسلمی ؓ دریائے دجیل کے کنارے نماز عصر پڑھ رہے تھے اور دوران نماز میں ان کی سواری بدکی اور قبلے کی جانب چلنے لگی۔
حضرت ابو برزہ بھی اس کے ساتھ ہو لیے۔
آخر کار اسے ساتھ لے کر الٹے پاؤں واپس آئے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی نماز جاری رکھی تھی وگرنہ وہ الٹے پاؤں واپس آنے کا تکلف نہ کرتے۔
اس واقعے سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو اس سلسلے میں سختی کرتے اور کہتے ہیں کہ ایسے حالات میں جانور کو چھوڑ دینا چاہیے، لیکن اپنی نماز کو قطع نہ کیا جائے۔
اس سے فقہا نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ اگر کسی کو اپنے مال و اسباب کے تلف ہونے کا اندیشہ ہو تو نماز قطع کرنا جائز ہے۔
(فتح الباري: 106/3) (2)
ابن بطال نے کہا ہے کہ دوران نماز میں اگر کسی کی سواری دوڑ جائے تو وہ نماز توڑ کر اس کا پیچھا کر سکتا ہے۔
اسی طرح جس نے دوران نماز اپنے جانور کی ہلاکت کا خطرہ محسوس کیا یا کسی بچے کو دیکھا کہ وہ کنویں کے کنارے کھڑا ہے اور اس میں گرنے کے قریب ہے یا کسی اندھے کے گڑھے میں گرنے کا اندیشہ محسوس کیا اور وہ مذکورہ امور کی مدافعت پر قادر ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ نماز توڑ کر ان کی حفاظت کرے۔
یہ ناممکن ہے کہ حضرت ابو برزہ اسلمی ؓ ایسا کریں اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق کوئی مشاہدہ نہ کیا ہو۔
ابن تین نے کہا ہے کہ اگر کوئی دوران نماز میں گراں قدر چیز کے ضائع ہونے کا خطرہ محسوس کرے تو اس کے لیے نماز توڑنا جائز ہے اور اگر معمولی چیز کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو نماز میں مصروف رہنا بہتر ہے۔
(عمدة القاري: 615/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1211