صحيح مسلم
كِتَاب اللِّبَاسِ وَالزِّينَةِ -- لباس اور زینت کے احکام
8. باب كَرَاهَةِ مَا زَادَ عَلَى الْحَاجَةِ مِنَ الْفِرَاشِ وَاللِّبَاسِ:
باب: حاجت سے زیادہ بچھونے اور لباس بنانا مکروہ ہے۔
حدیث نمبر: 5452
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو هَانِئٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، يَقُولُ: عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَهُ فِرَاشٌ لِلرَّجُلِ، وَفِرَاشٌ لِامْرَأَتِهِ، وَالثَّالِثُ لِلضَّيْفِ، وَالرَّابِعُ لِلشَّيْطَانِ ".
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرما یا: " ایک بستر مرد کے لیے ہے ایک اس کی بیوی کے لیے تیسرا بستر مہمان کے لیے اور چوتھا بستر شیطان کے لیے ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: ایک بستر خاوند کے لیے اور ایک بستر اس کی بیوی کے لیے اور تیسرا مہمان کے لیے اور چوتھا شیطان کے لیے ہے۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4142  
´بستر اور بچھونے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بستروں اور بچھونوں کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ایک بستر تو آدمی کو چاہیئے، ایک اس کی بیوی کو چاہیئے اور ایک مہمان کے لیے اور چوتھا بستر شیطان کے لیے ہوتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4142]
فوائد ومسائل:
گھر کے افراد اور مہمانوں کی آمد کے لحاظ سے بستروں کا اہتمام کرنا حق ہے۔
اس سے زیادہ اسراف، فخرومباہات اور زینت محض ہے جو باعث وبال ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4142   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5452  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
ظروف اور حالات کے مطابق بستر بنانا صحیح ہے،
لیکن محض فخر و مباہات اور اپنی دولت مندی کے اظہار کے لیے بستروں کی بھرمار کرنا،
حالانکہ کبھی ان کی ضرورت پیش نہیں آ سکتی،
یہ اسراف اور تبذیر ہے،
جس پر شیطان خوش ہوتا ہے اور آمادہ کرتا ہے اور بقول بعض ایسے بستروں پر شیطان ہی رات گزارتا ہے اور قیلولہ کرتا ہے،
جیسا کہ اس انسان کے گھر میں رات گزارتا ہے،
جو رات کو گھر داخل ہوتے وقت اللہ کو یاد نہیں کرتا اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے،
حالات کے پیش نظر خاوند بیوی الگ الگ بھی سو سکتے ہیں،
ہر حالت میں اکٹھے سونا لازم نہیں ہے،
حالات اجازت دیں تو پھر اکٹھے سونا افضل ہے،
جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5452