صحيح مسلم
كِتَاب اللِّبَاسِ وَالزِّينَةِ -- لباس اور زینت کے احکام
32. باب النَّهْيِ عَنِ الْجُلُوسِ فِي الطُّرُقَاتِ وَإِعْطَاءِ الطَّرِيقِ حَقَّهُ:
باب: راستوں میں بیٹھنے کی ممانعت اور حقوق کی ادائیگی کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 5563
حَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنِي حَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِيَّاكُمْ وَالْجُلُوسَ فِي الطُّرُقَاتِ "، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَنَا بُدٌّ مِنْ مَجَالِسِنَا نَتَحَدَّثُ فِيهَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَإِذَا أَبَيْتُمْ إِلَّا الْمَجْلِسَ فَأَعْطُوا الطَّرِيقَ حَقَّهُ "، قَالُوا: وَمَا حَقُّهُ؟، قَالَ: " غَضُّ الْبَصَرِ، وَكَفُّ الْأَذَى، وَرَدُّ السَّلَامِ، وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ، وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ ".
حفص بن میسرہ نے زید بن اسلم سے، انھوں نے عطاء بن یسار سے، انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "راستوں میں بیٹھنے سے بچو۔"لوگوں نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارے لیے اپنی مجلسوں میں بیٹھے بغیر چارہ نہیں وہی ہم ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اگر تم بیٹھے بغیر نہیں رہ سکتے تو راستے کا (جہاں مجلس ہے) حق ادا کرو۔"لوگوں نے پو چھا: راستے کا حق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: "نگا ہیں جھکا کر رکھنا (چلنے والوں کے لیے) تکلیف کا سبب بننے والی چیزوں کو ہٹانا سلام کا جواب دینا، اچھی بات کا حکم دینا اور برا ئی سے روکنا۔"
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم راستوں پر بیٹھنے سے بچو۔ صحابہ کرام نے عرض کیا، ہمیں اپنی ایسی مجلسوں میں بیٹھے بغیر چارہ نہیں۔ جہاں ہم ان میں باہمی گفتگو کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہیں بیٹھنے پر اصرار ہے تو راستے کا حق ادا کرو۔ انہوں نے پوچھا، اس کا حق کیا ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نظر نیچی رکھنا، تکلیف دینے سے باز رہنا، سلام کا جواب دینا، اچھائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1316  
´مکارم اخلاق (اچھے عمدہ اخلاق) کی ترغیب کا بیان`
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا راستوں (اور گلی کوچوں) میں بیٹھنے سے بچو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا، راستوں پر بیٹھے بغیر ہمارا گزارہ نہیں کیونکہ ہم وہاں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پس اگر تم نہیں مانتے تو راستہ کا حق ادا کرو۔ انہوں نے عرض کیا اس کا حق کیا ہے؟ فرمایا آنکھوں کو نیچے رکھنا۔ اذیت رسانی نہ کرنا اور سلام کا جواب دینا۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1316»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الاستئذان، باب قول الله تعالي: "يأيها الذين آمنوا لا تدخلوا..."، حديث:6229، ومسلم، الباس والزينة، باب النهي عن الجلوس في الطرقات...،حديث:2121.»
تشریح:
1. اس حدیث سے راستوں میں‘ جہاں سے لوگ گزرتے ہوں‘ بیٹھنے اور قصہ گوئی کرنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔
2.گلی کوچوں میں بیٹھنا اور راہ چلنے والوں کے لیے راستہ تنگ کرنا کون سی شرافت ہے۔
راستوں پر خواتین کا آنا جانا بھی رہتا ہے۔
لامحالہ ان کے لیے مشکل پیدا ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ ٹریفک کے مسائل ہیں۔
اگر راستے پر بیٹھنا مجبوری ہو تو پھر اس کے حقوق کی ادائیگی ضروری ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1316   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5563  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آپﷺ نے سد ذریعہ یعنی مفاسد سے تحفظ اور بچاؤ کے لیے راستوں پر بیٹھنے سے صحابہ کرام کو منع فرمایا،
لیکن جب انہوں نے اپنا عذر پیش کیا کہ باہمی گفتگو کے لیے ہمارے پاس کوئی اور جگہ نہیں ہے تو پھر آپ نے راستہ پر بیٹھنے کے آداب بتائے،
جن کی تعداد چودہ ہے،
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان کو نظم میں بیان کیا ہے۔
افش السلام،
احسن فی الكلام،
وشمت عاطسا،
سلاما رد احسانا فی الحمل عاون،
ومظلوما أعِن واغِث،
لهفان،
اِهدِ سبيلا،
واهد جيرانابالعرف مُر،
وانه عن نكر وكفِ اذی،
وغضِ طرفا،
واكثر ذكر مولانا سلام کو عام کر،
اچھی گفتگو کر،
چھینکنے والے کو دعا دے اور سلام کا بہتر طور پر جواب دے۔
بوجھ اٹھانے میں مدد کر،
مظلوم کا تعاون کر،
محتاج و ضرورت مند کی فریاد رسی کر،
راستہ بتا اور ساتھیوں کو تحفہ دےنیکی کی تلقین کر،
برائی سے روک،
تکلیف دینے سے باز رہ،
نظر نیچی رکھ اور اللہ تعالیٰ کو خوب یاد کر امام نووی،
تکلیف دینے سے باز رہے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں،
غیبت،
بدظنی،
گزرنے والوں میں سے کسی کو حقیر سمجھنا،
راستہ کو تنگ کرنا،
اس میں داخل ہے،
اس طرح اگر بیٹھنے والوں سے گزرنے والے مرعوب ہوتے ہیں،
یا ان سے خوف زدہ ہوں اور اپنے کام کاج کے لیے خوف کی وجہ سے گزر نہ سکتے ہوں،
حالانکہ گزرگاہ یہی ہے تو یہ بھی تکلیف دہ بات ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5563