صحيح مسلم
كِتَاب الْآدَابِ -- معاشرتی آداب کا بیان
7. باب الاِسْتِئْذَانِ:
باب: اذن چاہنے کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 5634
وحدثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبَانَ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ هَاشِمٍ ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَيبِهَذَا الْإِسْنَادِ غَيْرَ أَنَّهُ، قَالَ: فَقَالَ يَا أَبَا الْمُنْذِرِ: آنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، فَلَا تَكُنْ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ عَذَابًا عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَذْكُرْ مِنْ قَوْلِ عُمَرَ سُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا بَعْدَهُ.
علی بن ہاشم نے طلحہ بن یحییٰ سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی، مگر انھوں نے کہا: تو انھوں (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا: ابو منذر! (ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی کنیت) کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی تھی؟انھوں نے کہا: ہاں، ابن خطاب!تو آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے لیے عذاب نہ بنیں اور انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول: سبحان اللہ اور اس کے بعد کا حصہ ذکر نہیں کیا۔
امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے یہی روایت بیان کرتے ہیں فرق یہ ہے اس میں اے ابو منذر (یہ حضرت ابی بن کعب کی کنیت ہے) کیا تو نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے تو انہوں نے کہا ہاں اے ابن الخطاب! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے لیے عذاب نہ بن لیکن اس میں یہ نہیں کہ عمر نے سبحان اللہ اور بعد کا جملہ کہا۔