صحيح مسلم
كِتَاب السَّلَامِ -- سلامتی اور صحت کا بیان
26. باب لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ وَاسْتِحْبَابُ التَّدَاوِي:
باب: ہر بیماری کی ایک دوا ہے اور دوا کرنا مستحب ہے۔
حدیث نمبر: 5743
حَدَّثَنِي نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ ، قال: جَاءَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ فِي أَهْلِنَا وَرَجُلٌ يَشْتَكِي خُرَاجًا بِهِ أَوْ جِرَاحًا، فَقَالَ: مَا تَشْتَكِي؟ قَالَ: خُرَاجٌ بِي قَدْ شَقَّ عَلَيَّ، فَقَالَ: يَا غُلَامُ ائْتِنِي بِحَجَّامٍ، فَقَالَ لَهُ: مَا تَصْنَعُ بِالْحَجَّامِ يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ؟ قَالَ: أُرِيدُ أَنْ أُعَلِّقَ فِيهِ مِحْجَمًا، قَالَ: وَاللَّهِ إِنَّ الذُّبَابَ لَيُصِيبُنِي أَوْ يُصِيبُنِي الثَّوْبُ، فَيُؤْذِينِي وَيَشُقُّ عَلَيَّ فَلَمَّا رَأَى تَبَرُّمَهُ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: إِنِّي سمعت رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنْ كَانَ فِي شَيْءٍ مِنْ أَدْوِيَتِكُمْ خَيْرٌ فَفِي شَرْطَةِ مِحْجَمٍ أَوْ شَرْبَةٍ مِنْ عَسَلٍ أَوْ لَذْعَةٍ بِنَارٍ "، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَمَا أُحِبُّ أَنْ أَكْتَوِيَ " قَالَ: فَجَاءَ بِحَجَّامٍ فَشَرَطَهُ فَذَهَبَ عَنْهُ مَا يَجِدُ.
عبدالرحمان بن سلیمان نے حضرت عاصم بن عمر بن قتادہ سے روایت کی، کہا: کہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ہمارے گھر میں آئے اور ایک شخص کو زخم کی تکلیف تھی (یعنی قرحہ پڑ گیا تھا)۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تجھے کیا تکلیف ہے؟ وہ بولا کہ ایک قرحہ ہو گیا ہے جو کہ مجھ پر نہایت سخت ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے غلام! ایک پچھنے لگانے والے کو لے کر آ۔ وہ بولا کہ پچھنے لگانے والے کا کیا کام ہے؟ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس زخم پر پچھنے لگوانا چاہتا ہوں، وہ بولا کہ اللہ کی قسم مجھے مکھیاں ستائیں گی اور کپڑا لگے گا تو مجھے تکلیف ہو گی اور مجھ پر بہت سخت (وقت) گزرے گا۔ جب سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ اس کو پچھنے لگانے سے رنج ہوتا ہے تو کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اگر تمہاری دواؤں میں بہتر کوئی دوا ہے تو تین ہی دوائیں ہیں، ایک تو پچھنا، دوسرے شہد کا ایک گھونٹ اور تیسرے انگارے سے جلانا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں داغ لینا بہتر نہیں جانتا۔ راوی نے کہا کہ پھر پچھنے لگانے والا آیا اور اس نے اس کو پچھنے لگائے اور اس کی بیماری جاتی رہی۔
عاصم بن عمر قتادہ  بیان کرتے ہیں، حضرت جابر بن عبداللہ ؓ ہمارے گھر آئے اور ایک آدمی کو پھوڑے نکلے ہوئے تھے یا زخم تھے تو انہوں نے پوچھا، تمہیں کیا شکایت ہے، اس نے کہا، میرے لیے پھوڑے پھنسیاں، مشقت کا باعث ہیں تو حضرت جابر ؓ نے کہا، اے لڑکے! میرے پاس سنگی لگانے والے کو لاؤ، اس آدمی نے پوچھا، اے ابو عبداللہ! آپ سنگی لگانے والے کو بلوا کر کیا کریں گے؟ انہوں نے جواب دیا، میں ان پھوڑوں پر سنگی لگوانا چاہتا ہوں، اس نے کہا، اللہ کی قسم! مجھ پر مکھی بیٹھتی ہے، یا مجھے کپڑا چھوتا ہے تو وہ مجھے تکلیف دیتا ہے، (میں سنگی برداشت کر سکوں گا۔) جب حضرت جابر ؓ نے معلوم کیا، وہ اس سے اکتاہٹ محسوس کرتا ہے، تو کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے، "اگر تمہاری دواؤں میں سے کسی دوا میں خیر ہے تو سنگی سے پچھنے میں یا شہد کے گھونٹ میں یا آگ کے داغ میں ہے۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں آگ کے داغ کو پسند نہیں کرتا۔" تو لڑکا حجام کو لایا، اس نے اسے پچھنے لگائے تو اس کی تکلیف دور ہو گئی۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5743  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
محجم:
خون چوسنےکاآلہ،
سنگی۔
(2)
شرطة:
نشترلگانا،
سنگی لگانےکےلیے جسم کو پچھنا لگانا۔
(3)
لدغة بنار:
آگ کے ذریعے داغ لگانا۔
فوائد ومسائل:
امام ابو عبداللہ الماذری نے لکھا ہے کہ بیماریاں چار قسم کی ہیں،
دموی،
صفرادی،
بلغمی اور سوداوی،
اگر خون کا غلبہ ہونے کی بنا پر دموی ہیں تو ان کا علاج خون نکالنا ہے اور اگر باقی تین قسم کی ہیں تو اس کا علاج مناسب اسہال ہے،
(پیٹ جاری کرنا)
تو نبی اکرم نے شہد کے ذریعہ دست آور اشیاء کی طرف اشارہ فرمایا اور حجامۃ کے ذریعہ،
خون نکالنے والی اشیاء کی طرف اور آخری چارہ کار کے طور پر داغ لگانے کا تذکرہ فرمایا اور حافظ ابن قیم نے لکھا ہے،
بیماریاں درحقیقت حرارت اور برودت (ٹھنڈک)
کے غلبہ کا نتیجہ ہیں،
اگر بیماری گرمی کے غلبہ کی بنا پر ہے تو خون نکالا جائے گا،
سینگی کے ذریعہ ہو یا فصدرگ کھول کر،
کیونکہ اس طرح زائد مواد نکال کر مزاج کو ٹھنڈا کیا جاتا ہے اور اگر بیماری برودت کے سبب ہو تو مزاج کو گرم کرنے کی ضرورت ہے تو شہد یہ کام کرتا ہے اور اگر بارد مواد کو خارج کرنے کی ضرورت ہے تو شہد ایک نرم اور مسہل (دست آور)
ہے اور اگر بیماری پرانی ہو تو آخری علاج داغ کے ذریعہ بیماری کے مواد کو خارج کرنا پڑتا ہے،
(تکملہ ج 4 ص 336-337)
بہرحال آپ نے آگ سے داغنے کو پسند نہیں کیا اور امت کو اس کے عام استعمال سے منع فرمایا ہے،
کیونکہ یہ انتہائی تکلیف دہ علاج ہے اور جسم انسانی کو بدنما بھی بناتا ہے،
اس لیے اس کو آخری چارہ گاہ کے طور پر ماہر معالج کے مشورہ سے ہی کام میں لایا جا سکتا ہے،
آج کل اس کے لیے بجلی کی لہروں کو استعمال کیا جاتا ہے جس سے آگ کے داغ والے مفاسد پیدا نہیں ہوتے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5743