صحيح مسلم
كِتَاب السَّلَامِ -- سلامتی اور صحت کا بیان
32. باب الطَّاعُونِ وَالطِّيَرَةِ وَالْكَهَانَةِ وَنَحْوِهَا:
باب: طاعون، بدفالی اور کہانت کا بیان۔
حدیث نمبر: 5772
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، قال: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، وأبي النضر مولى عمر بن عبيد الله، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَسْأَلُ أُسَامَةَ بْنَ زَيْد مَاذَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الطَّاعُونِ؟ فَقَالَ أُسَامَةُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " الطَّاعُونُ رِجْزٌ أَوْ عَذَابٌ أُرْسِلَ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَوْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، فَإِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوا عَلَيْهِ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ "، وقَالَ أَبُو النَّضْرِ: لَا يُخْرِجُكُمْ إِلَّا فِرَارٌ مِنْهُ.
امام مالک نے محمد بن منکدر اور عمربن عبید اللہ کے آزاد کردہ غلام ابو نضر سے، انھوں نے عامر بن (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) سے روایت کی کہ انھوں نے سنا کہ وہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے پو چھ رہے تھے۔آپ نے طاعون کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سنا،؟اسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: " طاعون (اللہ کی بھیجی ہو ئی) آفت یا عذاب ہے جو بنی اسرا ئیل پر بھیجا گیا یا (فرما یا) تم سے پہلے لوگوں پر بھیجا گیا جب تم سنو کہ وہ کسی سر زمین میں ہے تو اس سر زمین پر نہ جاؤ اور اگر وہ ایسی سر زمین میں واقع ہو جا ئے جس میں تم لو گ (مو جو د) ہو تو تم اس سے بھا گ کر وہاں سے نکلو۔" ابو نضر نے (یہ جملہ) کہا: "تمھیں اس (طاعون) سے فرار کے علاوہ کوئی اور بات (اس سر زمین سے) نہ نکا ل رہی ہو۔"
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ سے دریافت کیا، آپ نے طاعون کے بارے میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سنا ہے؟ تو حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طاعون ایک قسم کا رجز یا عذاب ہے، جو بنی اسرائیل یا تم سے پہلے لوگوں پر بھیجا گیا، اس لیے جب تم کسی زمین میں اس کے موجود ہونے کے بارے میں سن لو تو وہاں نہ جاؤ، اور جب ایسی زمین میں پایا جائے، جہاں تم ہو تو اس سے ڈر کر نہ نکلوئ‘ ابو نضر کہتے ہیں، تمہیں اس سے فرار ہی نہ نکالے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 435  
´طاعون کافروں اور نافرمانوں کے لئے عذاب اور مؤمنوں کے لئے رحمت ہے`
«. . . عن عامر بن سعد بن ابى وقاص عن ابيه انه سمعه يسال اسامة بن زيد: ماذا سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول فى الطاعون؟ فقال اسامة بن زيد: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الطاعون رجز ارسل على طائفة من بني إسرائيل او على من كان قبلكم. فإذا سمعتم به بارض فلا تدخلوا عليه وإذا وقع بارض وانتم بها فلا تخرجوا فرارا منه. قال مالك: قال ابو النضر: لا يخرجكم إلا فرارا منه . . .»
. . . عامر بن سعد بن ابی وقاص رحمہ اللہ نے اپنے ابا (سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) کو سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے پوچھتے ہوئے سنا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کے بارے میں کیا سنا ہے؟ تو اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طاعون ایک عذاب (بیماری) ہے جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر یا تم سے پہلے لوگوں پر بھیجا گیا تھا۔ پس اگر تمہیں کسی علاقے میں اس (طاعون) کی خبر ملے تو وہاں نہ جاؤ اور اگر وہ (طاعون) تمہارے علاقے میں آ جائے تو راہ فرار اختیار کرتے ہوئے وہاں سے باہر نہ نکلو۔ مالک نے کہا: ابوالنضر نے (عامر سے روایت میں) کہا: یہ تمہیں راہ فرار پر مجبور کر کے نکال نہ دے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 435]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 3473، ومسلم 2218، من حديث مالك به]

تفقه
➊ طاعون کافروں اور نافرمانوں کے لئے عذاب ہے اور مؤمنوں کے لئے رحمت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«أَنَّهُ عَذَابٌ يَبْعَثُهُ اللهُ عَلَى مَنْ يَّشَاءُ وَأَنَّ اللهَ جَعَلَهُ رَحْمَةً لِلْمُؤْمِنِيْنَ، لَيْسَ مِنْ أَحَدٍ يَقَعُ الطَّاعُوْنُ فَيَمْكُثُ فِيْ بَلَدِهِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يُصِيْبُهُ إِلَّا مَا كَتَبَ اللهُ لَهُ إِلَّا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ شَهِيْدٍ»
یہ عذاب ہے جسے اللہ جس پر چاہتا ہے بھیج دیتا ہے اور اللہ نے اسے مؤمنوں کے لئے رحمت بنایا ہے، جو شخص بھی طاعون میں مبتلا ہوتا ہے پھر اپنے علاقے میں صبر و شکر اور نیت ثواب سے ٹھہرا رہتا ہے، وہ جانتا ہے کہ اس پر صرف وہی مصیبت آتی ہے جو اللہ نے اس کے لئے (تقدیر میں) لکھ رکھی ہے تو اسے شہید کا اجر ملتا ہے۔ [صحيح بخاري: 3474]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«الطاعون شهادة لكل مسلم»
طاعون ہر مسلمان کے لئے شہادت ہے۔ [صحيح بخاري: 2830 و صحيح مسلم: 1916]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 87   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1065  
´طاعون سے بھاگنے کی کراہت کا بیان۔`
اسامہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طاعون کا ذکر کیا، تو فرمایا: یہ اس عذاب کا بچا ہوا حصہ ہے، جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ ۱؎ پر بھیجا گیا تھا جب کسی زمین (ملک یا شہر) میں طاعون ہو جہاں پر تم رہ رہے ہو تو وہاں سے نہ نکلو ۲؎ اور جب وہ کسی ایسی سر زمین میں پھیلا ہو جہاں تم نہ رہتے ہو تو وہاں نہ جاؤ۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1065]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس گروہ سے مراد وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نے بیت المقدس کے دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونے کاحکم دیا تھا لیکن انھوں نے مخالفت کی،
اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے فرمایا ﴿فأرسلنا عليهم رجزاً من السماء'آیت میں'رجزاً من السماء﴾ سے مرادطاعون ہے چنانچہ ایک گھنٹہ میں ان کے بڑے بوڑھوں میں سے 24ہزارلوگ مرگئے۔

2؎:
کیونکہ وہاں سے بھاگ کرتم نہیں بچ سکتے اس سے بچاؤکا راستہ توبہ واستغفارہے نہ کہ وہاں سے چلے جانا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1065   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5772  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
رجز:
عذاب،
رجس،
اس حدیث میں ہم معنی الفاظ ہیں۔
(2)
طاعون:
بروزن فاعول:
ایک عام وباء ہے اور یہ ایک تباہ کن زہریلا مواد ہے،
جو انسانی جسم کے نرم حصوں،
خاص کر بغل،
کہنی،
انگلیوں کے جوڑوں،
کان کے پیچھے،
گھٹنوں کے اندرونی حصہ میں،
پھوڑے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے،
اس سے ورم اور شدید درد اٹھتا ہے،
سوزش پیدا ہو جاتی ہے،
اس کا اردگرد سیاہ ہو جاتا ہے،
جو انتہائی خطرناک ہے،
اس سے کم خطرناک اردگرد کا زرد ہونا ہے اور سب سے کم خطرناک سرخ ہونا ہے،
اس سے دل دھڑکتا ہے،
قے اور غشی طاری ہوجاتی ہے۔
فوائد ومسائل:
طاعون کی وباء پہلی امتوں پر عذاب کی صورت میں مسلط کی گئی،
بنو اسرائیل اپنے گناہوں کی پاداش میں اس سے کئی دفعہ دوچار ہوئے،
جیسا کہ یہود و نصاریٰ کی کتاب کتاب مقدس کے عہد قدیم کے صحائف سے ثابت ہوتا ہے اور فرعونی بھی اس سے دوچار ہوئے،
آپ نے وبائی زمین میں جانے سے منع فرمایا ہے،
کیونکہ اس طرح ظاہری اسباب و وسائل کا ترک کرنا لازم آتا ہے،
حالانکہ توکل کا معنی اسباب و وسائل کا ترک نہیں ہے،
بلکہ جائز اسباب و وسائل اپنا کر نتائج اللہ کے سپرد کرنا توکل ہے اور وہاں سے بھاگنا،
اسباب و وسائل ہی کو سب کچھ سمجھنا ہے اور یہ توکل کے منافی ہے،
اسباب و وسائل اس وقت نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں،
جب اللہ کی اجازت اور مشیت ہو،
اس لیے اسلام نے اعتدال و توازن کو اختیار کیا ہے،
وبائی زمین سے بھاگ کر یہ سمجھنا میں اس طرح وباء سے بچ جاؤں گا،
تقدیر کا انکار ہے اور وہاں جانا،
اسباب و وسائل کا انکار ہے،
ابو نضر کے الفاظ،
لا يخرجكم الا فرار منه کا مفہوم یہی کہنا ہو گا کہ طاعون سے فرار ہی نکلنے کا سبب نہ ہو،
وگرنہ ظاہری معنی کہ تم قرار اختیار کرتے ہی نکلے،
حدیث کے سیاق و سباق کے منافی ہے،
اس کا معنی تو یہ ہوا،
فرار کے سوا کوئی صورت جائز نہیں ہے،
جبکہ ابو نضر کا مقصد،
فلا تخر فرارا فرارا منه کی توضیح و تشریح ہے،
مقصد یہ ہے راہ فرار اختیار کرنے کے سوا کسی اور غرض اور مقصد کے لیے نکلنا جائز ہے،
مثلا تحصیل علم کے لیے،
تجارت کے لیے،
علاج و معالجہ کے لیے،
اگر محض فرار کے لیے نکلیں گے تو اس طرح دیکھا دیکھی اہل ثروت تو نکل جائیں گے،
پیچھے محتاج و ضرورت مند رہ جائیں گے،
ان کو کون سنبھالے گا،
ان کے کفن دفن کا انتظام کون کرے گا اور ان کے جانے کے بعد اگر اللہ کی مرضی اور مشیت سے دوسری جگہ وباء پھیل گئی تو یہی سمجھا جائے گا کہ ان کے آنے کی وجہ سے یہاں بھی وباء پھیل گئی ہے،
اس طرح بیماری کے متعدی ہونے کا عقیدہ پختہ ہو گا،
جو اسلام کی منشا کے منافی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5772